Tuesday 8 January 2013

QAZI HUSAIN AHMED COLUMN IN NAWAIWAQT 8-1-2013


کالم نگار  |  احتشام الرحمن
ستم کا آشنا تھا جو سبھی کے دل دکھا گیا۔ آہ قاضی حسین احمد بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پروفیسر غفور کے جنازے کو کندھا دینے والا خود دوسروں کے کندھوں پر سوار ”لحد“ میں جا بسا۔ یہی اللہ تعالیٰ سے کیا گیا وہ وعدہ ہے جو ہر انسان نے نبھانا ہے۔ دنیا میں آنے والے کو ایک دن اللہ کے پاس ہی جانا ہے۔ قاضی حسین احمد صرف ایک نام نہیں تحریک کا نام ہے۔ ایک ایسی تحریک کہ جس کا نام ہی ”تحریک اسلامی“ ہے۔ جس کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی لیکن رہبر و رہنما حضور نبی کریم کی ذات بابرکات ہے اور جس کا رشتہ قائم ہے تو صرف اور صرف لاالہ الااللہ ہے۔
قاضی حسین احمد نے 1938ءسے جنوری 2013ءتک زندگی پائی۔ آپ کے والد مولانا عبدالرب نے قاضی صاحب کی ابتدائی تعلیم اور دینی تربیت کی۔ دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے لیکن عزم و ہمت، علم، قیادت، نرم دم گفتگو، صعوبتیں برداشت کرنے، مجاہدانہ زندگی گزارنے، مرکز نگاہ رہنے، شفقت، محبت، ایثار و قربانی اور جدوجہد اور اللہ اور اس کے رسول سے محبت میں شاید باقی بہن بھائیوں سے بہت بڑے اور آگے تھے۔
ایم ایس سی جغرافیہ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد قاضی صاحب درس و تدریس سے منسلک رہے۔ ملازمت چھوڑنے کے بعد ذاتی کاروبار شروع کیا۔ سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر رہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ بنے اور 1970ءمیں وہ جماعت اسلامی کے رکن بنے۔ 1978ءمیں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور 1987ءمیں جماعت اسلامی کے امیر بن گئے اور 2004ءتک امیر رہے۔ جماعت اسلامی میں مولانا مودودی (مرحوم) اور میاں طفیل محمد (مرحوم) کے بعد قاضی صاحب مسلسل چار بار جماعت اسلامی کے امیر رہے۔ 1985ءمیں چھ سال کے لئے سینٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992ءمیں دوبارہ سنیٹر بنے۔ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو ”عوامی“ جماعت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ”دھرنا“ اور ”ملین مارچ“ قاضی صاحب کی ہی ”ایجادات“ ہیں۔ قاضی صاحب جوانوں سے زیادہ جوان تھے۔
قاضی صاحب ”جدید اور اعتدال پسند جماعت اسلامی“ کے حقیقی بانی بھی ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبا و طالبات، مدارس عربیہ، شباب ملی اور پاسبان کو متحرک کرکے جماعت اسلامی کے دست و بازو بنا دیا۔ ان کی سیاسی جدوجہد اور جماعت کو ”عوامی“ بنانے کی جدوجہد کی وجہ سے انہیں جماعت کے ”اندر“ اور ”باہر“ سے شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا تاہم قاضی صاحب نے اپنے مضبوط دلائل سے ناقدین کو نہ صرف قائل بلکہ ٹھنڈا کیا۔ قاضی حسین احمد امت مسلمہ کے اتحاد کے سچے اور پکے داعی تھے۔ متحدہ مجلس عمل کا قیام اور انتخابات میں شاندار کامیابی قاضی صاحب کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ رہی اور جب مجلس عمل فعال نہ رہی تو قاضی صاحب نے امید کا دامن پھر بھی نہ چھوڑا اور ملی یکجہتی کونسل بنا کر اپنا ”اتحاد امت“ کا مشن آخری دم تک جاری رکھا۔ کشمیر، بوسنیا، چیچنیا، افغانستان، برما، سوڈان، فلسطین اور بھارت کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرتے رہے۔ برادر اسلامی ممالک میں ان کو انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ قاضی صاحب مفسر اقبال تھے انہیں اردو، انگریزی، فارسی، پشتو پر عبور حاصل تھا اور اکثر فرمایا کرتے تھے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
قاضی صاحب سے میری جتنی بھی ملاقاتیں رہیں انہیں انتہائی نفیس مشق اور باعمل مسلمان پایا۔ وہ نظریہ پاکستان کے سچے اور پکے حامی تھے۔
مولانا مودودی، میاں طفیل محمد، انجینئر خرم مراد اور پروفیسر غفور احمد کے بعد قاضی حسین احمد کی وفات جماعت اسلامی کے لئے بہت بڑا نقصان ہے اور یقیناً جماعت اسلامی سے محبت کرنے والا ہر شخص قاضی صاحب کی وفات پر غمزدہ ہے لیکن موت ایک اٹل حقیقت ہے جس کا ذائقہ ہر نفس نے چکھنا ہے اور جس کو اللہ کی طرف سے جب بلوا آ جاتا ہے تو وہ اپنے پاک پروردگار سے ملاقات کے لئے اصل زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی ہے کی جانب رخت سفر باندھتا ہے۔ تاہم قاضی صاحب کی زندگی ایک جدوجہد کی صورت میں اور ان کی تحریر و تقاریر کی صورت میں جماعت کے کارکنوں کے لئے ایک بہت بڑا اثاثہ ہیں جس پر عمل کرکے اسلامی انقلاب کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ قاضی صاحب نے اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے عزیزو اب آپ سے جنت میں ہی ملاقات ہو گی۔ قاضی 
صاحب تو انشاءاللہ جنت پا چکے ہوں گے تاہم اب ہمیں بھی جنت کے حصول کے لئے جدوجہد تیز کرنا ہو گی۔
ستم کا آشنا تھا جو سبھی کے دل دکھا گی

No comments:

Post a Comment