Tuesday 30 July 2013

KISAN BORD WILL AGETATE ON INDIAN WATER WAR.30-7-2013

KISAN BORD WILL AGETATE ON INDIAN WATER WAR.30-7-2013
http://jamaat.org/ur/news_detail.php?article_id=3438

اس وقت ملک کا سب بڑا ایشو بھارت کی آبی جارحیت ہے


لاہور30جولائی2013ء: پاکستان کسان بورڈ کے صدر سردار ضفر حسین نے لاہور پریس کلب میں ایک ہنگامی اور پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے کہا کہ پانی ہر جاندار کی بنیادی ضرورت ہے جسکے بغیر زندگی کا کا نظام برقرار نہیں رہ سکتا ۔ وطن عزیز میں بڑھتا ہوا پانی اور توانائی کا بحران لمحہ فکریہ ہے ۔ زراعت تو درکنار اکثر علاقوں میں پینے کے لئے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے ۔ پانی کی کمی کی وجہ سے زیر کاشت رقبہ 22.3 ملین ہیکٹر سے کم ہوکر 21.2ملین ہیکٹررہ گیا ہے۔ دریاوں کی دھرتی صحراوں میں بدل رہی ہے ۔ پانی کی کمی کا آغاز 1948ءسے ہوا اور تاحال جاری ہے ۔ قومی سطح پر جتنے بھی بنیادی مسائل ہیں سب سے بڑا ایشو،،انڈیا کی آبی جارحیت ،،ہے ۔ حال ہی میں امریکی میڈیا نے بھی پانی کی کمی کو دہشت گردی سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔20 کروڑعوام کی زندگی اور موت کا یہ مسئلہ فی الفور حل کرنے کیلئے قومی پالیسی وضع کی جائے ورنہ بہت دیرہوجائے گی۔ جناب عالیٰ! یہ بحران اچانک پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ یہ ایک غیر ملکی سازش ہے اسی سازش کا نتیجہ ہے کہ 1950ءمیں یہاں پانی کی فی کس مقدار 5830 کیوبک میٹر تھی اب صرف ایک ہزار کیوبک میٹر ہے ۔اور 2025 ءتک یہ صرف 550کیوبک میٹر رہ جائے گی ۔اور یہ مقدار 500 کیوبک میٹر تک پہنچ جائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ سابق حکمرانوں نے قومی اہمیت کا اہم مسئلہ آئندہ حکومتوں پر چھوڑنے کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجہ میں قوم آج بڑے کربلا کی طرف گامزن ہے ۔
جناب عالیٰ! یہ حقیقت ریکارڈپر موجود ہے کہ 1996ءمیں نہروں میں پانی کی قلت 2فیصد ریکارڈ کی گئی ۔1997ءمیں یہ کمی 9 فیصد ہوگی ۔ 2000ءتک یہ کمی 43% تک پہنچ گئی۔ بارشیں کم ہونے سے یہ قلت 61% پہنچ چکی ۔ پانی کی عدم دستیابی کے باعث صوبہ بلوچستان ، سندھ اور جنوبی پنجاب میں ہزاروںانسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ لاکھوں مویشی اور افراد پانی کی کمی کے علاقوں سے نقل مکانی کرچکے ہیں ۔ دریائے ستلج ، بیاس اور راوی کی مکمل بندش کے بعد باقی ماندہ دریاوں چناب ، جہلم اور سندھ کے پانی سے محروم کرنے کا عمل ظلم اور دہشت گردی کی انتہا ہے۔ پانی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر عالمی سطح پر پانی کا اوسطاً ذخیرہ 40فی صد ،بھارت میں 54% ہے ۔ اور پاکستان میں صرف 9% ہے ۔ دریائے چناب سے بگلیار ڈیم کی تعمیر سے پہلے 90 لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوتا تھا۔ اب صرف 23 لاکھ سیراب ہورہا ہے ۔ ۔دریاوں میں پانی کے بہاو میں مجموعی طور پر 80 فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔۔
جناب عالیٰ! بھارت جنگی بنیادوں پر پاکستانی باقی ماندہ دریاوں پر متنازع ڈیموںکی تعمیرکر رہا ہے ۔ دریائے چناب پر بگلیار ڈیم فیز II تعمیر کا کام مکمل کر لیا گیا ہے ۔ ساول کوٹ کے نام سے ایک اور دنیا کا چوتھا بڑے ڈیم کی تعمیر بھی شروع ہے ۔ اور یہ تربیلا اور منگلا ڈیم سے 3گنا بڑا ہے ۔ 2014ءتک یہ دونوں ڈیم مکمل ہوجائیں گے ۔ جس کے بعد پاکستان دریائے چناب کے پانی سے مکمل طور پر محروم ہوجائے گا۔ دونوں متنازع ڈیموںکو فی الفور انٹرنیشنل کورٹ میں چیلنج کیاجائے ۔دریائے چناب پر ہی کرتھائی ڈیم تعمیر کے مراحل میں اور اب مورخہ 25-7-2013 کو انڈیا نے دریائے چناب پر ایک اور بڑے ڈیم ،، پاکل دل ڈیم ،،کا افتتاح کرکے ہمیں دریائے چناب کے پانی سے مکمل محروم کرنے کی سازش پر عمل مزید تیز تر کر دیا ہے ۔ان کے علاوہ بھارت دریائے سندھ پر 7ڈیم مکمل کر چکا اور بڑے چھوٹے 23 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے۔ دریائے سندھ پر دنیا کے دوسرے بڑے کارگل ڈیم کی تعمیر جاری ہے ۔ علاوہ ازیں 4 بڑے ڈیم بنا رہاہے جبکہ 13 چھوٹے ڈیم مکمل کر چکا ہے ۔دریائے جہلم کی صورتحال بھی کافی خوفناک ہے ۔ بھارت دریائے جہلم پر وولر بیراج ، اوری ٹو ڈیم اور بیر سر ڈیم سمیت بڑے چھوٹے 54 ڈیم بنا رہا ہے۔ جن میں وولر بیراج کی تعمیر 99%مکمل ، اوری ٹو ڈیم تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔ دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے بھارت دریائے نیلم کا رُخ موڑ کر دریائے جہلم میں ڈال رہا ہے ۔ جس کے باعث وادی کشمیر کا جنت نذیر علاقہ تباہ ہوجائے گا اور یہاں پینے کے لئے پانی ہی دستیاب نہیں ہوگا۔ اس منصوبہ بھی پاکستان میں نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ اور منگلا ڈیم خشک صحرا بن جائیںگے۔ بگلیار ڈیم کے بعد کشن گنگا منصوبہ بھی انڈیا کی طرف سے جاری ہے ۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ بھارت دریائے چناب پر مکمل قبضہ کر چکا ہے ۔ جہلم پر قبضہ کیلئے 54 منصوبوں پر کام جاری ہے ۔ بھارت 2014ءتک دریائے جہلم کا پانی بھی کنٹرول کرلے گا۔ رواں سال جنوبی پنجاب کے 10اضلاع شدید متاثر ہو رہے ہیں۔ اہم نقد آور فصلوں میں61%کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔بھارت میں 4ہزار ڈیم زیر تعمیر ہیں۔ 15ہزار کلومیٹر رابطہ نہریں نکالی جارہی ہیں۔جبکہ پاکستان میںگزشتہ سینتیس سال میںایک بھی بڑے ڈیم پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا۔ جناب عالیٰ! اس خوفناک صورتحال کے پیش نظرہمارا مطالبہ ہے پانی کی کمی کے مسئلے اور انڈیا کی آبی دہشت گردی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جائے ، قومی واٹر پالیسی بنانے کیلیے فوری طور پر اے پی سی بلائی جائے جس میں کسان تنظیموں اور آبی ماہرین کو بھی بلایا جائے۔ انٹرنیشنل کورٹ میں سندھ طاس معاہدوں کو چیلنج کر دیا جائے۔ میڈیا اور قوم سے درد مندانہ اپیل ہے کہ وہ اس مسئلہ پر متحد ہو کر آواز بلند کریں۔دہشت گردی اورانرجی کے مسئلے سے بڑا مسئلہ اس وقت انڈیا کی آبی دہشت گردی اور ہمارے حکمرانوں کی بے حسی ہے ۔ہم انشا ءاللہ اس مسئلے کیلیے عوام میں بیداری پیدا کرنے کیلیے ہنگامی اور خصوصی مہم چلا رہے ہیں ۔انشا ءاللہ جلد ہی ہزاروںکسی بردار کسان اسلام آباد کی طرف لونگ مارچ کر کے پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیں ۔کسان بورڈ کی چاروں صوبوں کی تنظیموں سے مشورہ کے بعد تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ میڈیا کے تمام معزز صحافیوں اور پریس کلب لاہور کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے شدید گرمی اور روزے کے ساتھ ہماری باتوں کو سنا

No comments:

Post a Comment