Sunday 20 April 2014

ARTECLE ABOUT ROADS NAJAIZ TAJAWZAT.GULZAR MALIK.NAWAIWAQT 20-04-2014

ARTECLE ABOUT ROADS NAJAIZ TAJAWZAT.GULZAR MALIK.NAWAIWAQT 20-04-2014

http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2014-04-20/page-13/detail-5

گلزار ملک
بڑے شہروں کے اندر ایک دوسرے کا احساس اور پیار محبت دن بدن ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اب تو بس ہر طرف سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے ’’حد ہو گئی‘‘ لاہور شہر میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات کے اہتمام کے لئے چلتی ٹریفک والی پر ہجوم سڑک کو بغیر کسی کو اطلاع دئیے  کر کے ہر لحاظ  سے خوب خوشی کا اظہار کرتے ہیں ایسی تقریبات کے لئے سڑک کے عین درمیان میں شامیانے سجائے جاتے ہیں سڑک مکمل طور پر ہر طرح کی چھوٹی بڑی ٹریفک کے لئے بند کر دی جاتی ہے۔ جس سے آمدورفت میں شہریوں کو شدید مشکلات  کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہاں تک کہ جس سڑک پر شامیانے لگے ہوتے ہیں وہاں سے پیدل چلنے والوں کے لئے بھی کوئی راستہ نہیں ہوتا اس دوران بہت ساری تقریبات  میں اس عذاب کے باعث لڑائی جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ شہر لاہور کے پرانے علاقوں خاص کر کے جو لاہور دروازوں کے اندر واقع ہے وہاں پر ایسی سڑکوں کے اوپر شامیانے لگانا لوگوں کی مجبوری ہے۔ مگر دیگر علاقوں کے رہنے والوں  کے لئے تو کوئی مجبوری نہیں ہے یہ صوتحال بہت سارے لوگوں کے لئے عذاب کا باعث بن رہی ہے اس طرح پوری سڑک پر شامیانے لگانے پر پابندی لگنی چاہئیے اور اس کے لئے مقامی مٹیرو کارپوریشن کے دفتر سے اجازت لینی چاہئیے وہ جتنی جگہ کا انتخاب کر کے دیں اور اسی دائرہ میں شامیانے لگائے جانے چاہئں تاکہ پیدل چلنے والوں کے مشکلات پیدا نہ ہوں۔ یاد رہے کہ اس دوران یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایمبولینس بھی چیخ و پکارکرتی ہوئی راستہ تبدیل کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہے جتنی دیر تک اس مسئلہ کی طرف سنجیدگی سے غور اور سختی نہ کی گئی تو اس وقت تک اس مشکلات کا ازالہ ممکن نہیں۔
ان تقریبات میں ایک اور عذاب کا بھی شہریوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے اس دوران آتش بازی اور فائرنگ کا استعمال دل کھول کر سر عام کھلے میدان کیا جاتا ہے بعض تقریبات میں قابل اعتراض  محفلیں بھی سجائی جاتی ہیں قانون نافذ کرنے  والے ایسی تقریبات میں جانا اور ایسے افراد پر ہاتھ ڈالنا   گناہ سمجھتے ہیں بلکہ یہاں پر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ  اس کے بارے  کوئی شہری شکایت کرے تو الٹا اطلا ع دینے  والے کی ڈانٹ ڈپٹ کی جاتی ہے ان سڑکوں پر سرکاری چھٹی کے روز منچلے کرکٹ کھیلنے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں یہ کام بھی شہریوں کیلئے عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ چھٹی کے دن خاص کر کے اتوار کے روز  ہر چھوٹی بڑی سڑک سٹیڈیم کا نقشہ پیش کر رہی ہوتی ہے۔ اس موقع پر بھی شہریوں کے درمیان لڑائی جھگڑے ہر چھٹی پر معمول کا حصہ ہوتے ہیں یہ کام اگر طالب علم یا چھوٹے بچے کریں تو گزارہ ہو سکتا ہے مگر افسوس کہ بڑی عمر کے سمجھ دار  افراد بھی کرکٹ کھیلنے کا شوق پورا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اس دوران  گالیوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے گلی محلوں کی سڑک پر  ہونے والے اس کھیل سے آس پاس میں گھروں میں سوئے افراد بھی بے سکون ہو کر نیند سے اٹھ جاتے ہیں۔پنجاب حکومت کو چاہئیے کہ لاہور کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر شادی ہال بھی قائم کر کے جہاں پر غریب آدمی سڑک پر شامیانے لگانے کی بجائے شادی ہال میں اپنی تقریب منعقد کرے اورسڑکوں پر کرکٹ کے کھیل پر سختی سے پابندی لگائی جائے اور یہ لوگ سٹیڈیم میں چھٹی کے دن اپنا یہ شوق پورا کریں تو اس سے ھادثات سے بچا جا سکتا ہے ۔

BHAI PHERO PHOOL NAGAR DURTIEST CITY OF THE PAKISTAN.SPEAKER PUNJAB ASSEMBLY SHOULD LOOK THE MATTER.20-04-2014

BHAI PHERO PHOOL NAGAR DURTIEST CITY OF THE PAKISTAN.SPEAKER PUNJAB ASSEMBLY SHOULD LOOK THE MATTER.20-04-2014


Thursday 17 April 2014

JAMAAT-E-ISLAMI PAKISTAN NEW AMEER SIRAJUL HAQ .ARTECLE KHABRAIN 17-4-2014

JAMAAT-E-ISLAMI PAKISTAN NEW AMEER SIRAJUL HAQ .ARTECLE KHABRAIN 17-4-2014



JAMAAT-E-ISLAMI NEW AMEER SIRAJUL HAQ .ARTECLE NAWAI WAQT 15-4-2014

JAMAAT-E-ISLAMI NEW AMEER SIRAJUL HAQ .ARTECLE NAWAI WAQT 15-4-2014

جماعت اسلامی۔۔ نیا امیر نئی سوچ http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/15-Apr-2014/296020

کالم نگار  |  فریحہ ادریس
15 اپریل 2014 24
جماعت اسلامی۔۔ نیا امیر نئی سوچ

جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن کی جگہ سراج الحق کا انتخاب جماعت اسلامی کی فکر میں ایک انقلابی تبدیلی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ ایسی ہی ایک تبدیلی انیس سو ستاسی میں آئی تھی جب قاضی حسین احمد مرحوم جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تھے۔ قاضی حسین احمد ایک انتہائی متحرک شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے جماعت کے ٹہرے ہوئے پانی میں کنکر پھینک کر اسے حرکت دینے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ جماعت اسلامی کی سیاست کو جو رخ قاضی حسین احمد نے دیا اس سے جماعتِ اسلامی پاکستان کا رجحان تبدیل ہو گیا تھا۔ ان سے پہلے جماعت اسلامی عوامی جماعت بننے کے بجائے ایک الگ سیاسی فرقے کی شکل اختیار کر چکی تھی، خاص طور پر جنرل ضیاالحق کی آمریت کا ساتھ دینے اور اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم بن جانے کاالزام جماعت کے ساتھ اس طرح نتھی ہو گیا کہ عام افراد جماعت اسلامی سے دور دور ہی رہتے اور المیہ یہ تھا کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی کبھی ان فاصلوں کو مٹانے کی کوشش نہیں کی ، مگر قاضی حسین احمد نے جماعت کو حقیقی عوامی جماعت بنانے کیلئے انتھک کوششیں کیں اور وہ جماعت اسلامی کو اس کے مخصوص حلقوں سے اٹھا کر گلی کوچوں میں لے آئے ، جماعت کے روایت پسند ثقہ قسم کے حضرات کو انکی یہ پالیسی پسند نہ آئی اوران کی اس حوالے سے مخالفت بھی ہوئی مگر قاضی صاحب نے ہمت نہ ہاری، انہوں نے پہلی بار پاکستان کے مظلوموں کے حقوق اور عوام مسائل پر آواز اٹھائی ، نوئے کی دہائی میں پاکستان کے گلی کوچوں میں یہ نعرہ گونج رہا تھا کہ ظالمو قاضی آ رہا ہے۔ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو ایک عوامی رخ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کا عام آدمی جماعت اسلامی کو قاضی حسین احمد مرحوم کے حوالے سے جانتا ہے۔
انکے بعد سید منور حسن جماعت کے امیر منتخب ہوئے انکا دور اس حوالے سے یاد رکھا جائیگا کہ جماعت اسلامی ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کے طور پر سامنے آئی اور اسٹیبلشمنٹ کیساتھ اسکی باقاعدہ محاذ آرائی شروع ہو گئی، بدقسمتی سے اسکے ساتھ ہی جماعت اسلامی کی طالبان کے ساتھ نظریاتی وابستگی بھی سامنے آنے لگی۔ جن لوگوں کے ہاتھ پچاس ہزار پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جو اسلام کے نام پر ہر مخالف کا گلا کاٹنا عین شریعت سمجھتے ہیں ، جو نہ آئین کو مانتے ہیں اور نہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ، جماعت اسلامی کے امیر کا انکی حمایت کرنا اور انہیں اپنا بھائی قرار دینا ہر پاکستانی کی فہم سے بالاتر تھا ، مولانا مودودی کی قائم کردہ جماعت کو انتہا پسندوں کی پشت پر کھڑا دیکھ کر ہر پاکستانی حیران تھا کہاں سیدابوالاعلی مودودی کا فہم اسلام اور کہاں قبائلی سوچ رکھنے والے طالبان کے جنونی نظریات ، میڈیا کے ساتھ گفتگو میں بھی انکے بعض متنازعہ بیانات نے ہنگامہ کھڑا کیا جس سے ظاہر ہوا کہ انہیں اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا ہنر نہیں آتا۔ سید منور حسن کی اس سوچ کو خود جماعت اسلامی کے اندر پذیرائی نہیں ملی جس کا ثبوت جماعت کے ارکین کا امارت کیلئے انکے بجائے سراج الحق کا انتخاب کرنا ہے، میڈیا کے حلقوں نے تو اسے سید منور حسن کی شکست قرار دیا ہے۔ مگر نو اپریل کو منصورہ میں سراج الحق کی تقریب حلف برداری میں یہ منظر دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ نہ ہارنے والا روٹھا ہوا تھا اور نہ جیتنے والا اپنی کامیابی پر آپے سے باہر تھا ، سابق امیر سید منور حسن نے نئے امیر کو مبارکباد دی اور بڑے خوشگوار انداز میں پرانی باتوں کو دہرایا۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا کہ جماعت اسلامی کے پانچ ہزار اراکین نے امیر کے انتخاب میں اپنے ووٹ کیوں استعمال نہیں کئے اور جماعت اسلامی کی قیادت سے کہا کہ وہ ان سے رابطے کریں ، جیتنے والے امیر سراج الحق نے کہا کہ میں سید منور حسن سے کسی لحاظ سے بھی برتر نہیں ہوں نہ میں عالم ہوں نہ تقوی پرہیز گاری میں ان سے بہتر ہوں۔ یہ سوچ برطانیہ یا امریکہ میں تو عام ہے جہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت متواتر تبدیل ہوتی رہتی ہے مگر پاکستان میں یہ بات انوکھی لگتی ہے جہاں کوئی لیڈر جیتے جی پارٹی کی قیادت چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتا اور اس کے مرنے کے بعد بھی پارٹی کی قیادت خاندان کے اندر ہی رہتی ہے ، اسکی مثال پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان ، مسلم لیگ ن اور شریف خاندان ، عوامی نیشنل پارٹی اور غفار خان کا خاندان ، جمعیت علمائے اسلام اور مولانا مفتی محمود کے گھرانے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، یہ جماعتیں اپنے لیڈروں اور انکے خاندان کے بغیر کچھ معنی نہیں رکھتیں یعنی بقول اقبال…ع
 موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
تحریک انصاف نے اس روایت کو توڑ کر اپنی جماعت میں انتخاب کروائے مگر ان کا جو حال ہوا وہ ایڈہاک بنیادوں پر جہانگیر ترین کی سیکرٹری جنرل کے عہدے پرنامزدگی کی شکل میں سب کے سامنے ہے جبکہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن پارٹی انتخابات کے بارے میں کہتے ہیں کہ پیسہ جیت گیا اور جنون ہار گیا۔ جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی یہ مانتے ہیں کہ جماعت اسلامی پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے کہ اس جماعت کے اندر مکمل جمہوریت قائم ہے ،امیر کا انتخاب جماعت کے ارکین کرتے ہیں اور جماعت کے اندر احتساب کا بھی ایک موثر نظام قائم ہے اور اس کا نظم بھی مثالی ہے۔ مختلف ادوار میں کچھ اراکین کے جماعت اسلامی سے اختلافات بھی ہوئے اور وہ جماعت سے کنارہ کش بھی ہو گئے، مگر کہتے ہیں لوگ جماعت سے نکل جاتے ہیں مگر جماعت انکے اندر سے نہیں نکلتی اسی لیے جماعت اسلامی میں کبھی کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنا۔ منصورہ میں نومنتخب امیر سراج الحق کی تقریر سنتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ اب جماعت اسلامی کی عملی اور فکری سیاست میں ایک بڑی گہری تبدیلی رونما ہونے والی ہے، سید منور حسن کے دور میں طالبان کی سوچ سے نزدیکیوں کی وجہ سے جماعت اسلامی جس جمود اورسیاسی تنہائی کا شکار ہو گئی تھی وہ اب ختم ہونے والا ہے۔ سراج الحق کی تقریر میں کچھ اہم نکات ایسے تھے جو اس انقلاب کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو ان کے دور میں نظر آ رہا ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے سابق امیر سید منور حسن کی فکر سے مکمل اختلاف کرتے ہوئے طالبان کی سوچ کو رد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ
"ہم غیر جمہوری ،غیر آئینی اور غیر قانونی طریقوں کے ذریعے ملکی قیادت کو تبدیل کرنے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہم ایک پْرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے انقلاب چاہتے ہیں، سید ابوالاعلیٰ مودوی کی فکر کسی قسم کے تشدد، سازش اور خفیہ تحریک کے ذریعے سے انقلاب بر پا کرنے سے روکتی ہے۔ جماعت اسلامی پہلے دن سے اسی نظریے پر کاربند ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑیں نہیں پکڑ سکتا جب تک لوگوں کے خیالات اور رویے تبدیل نہ ہوں۔ مصنوعی نعروں سے انقلاب بر پا نہیں ہوتے بلکہ ہمیں حقیقی معیار قائم کر کے اْسے حاصل کرنے کی جدو جہد کرنا ہو گی"۔
سراج الحق نے طالبان کی اس سوچ کو بھی رد کر دیا کہ آئین پاکستان غیر اسلامی ہے اور وہ اسے نہیں مانتے، نو منتخب امیر نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ: " آئین پاکستان کے دائرے میں اور عوام کی مرضی سے انقلاب لانا چاہتے ہیں کیونکہ پائیدار تبدیلی کیلئے قوم کے ذہن کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور آئین پاکستان ایک اسلامی آئین ہے جو اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے  مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے" …امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے انتہا پسندوں کی طاقت کے زریعے اسلامی نظام کے نفاذ کی سوچ کو بھی مسترد کر دیا اور انہوں نے جمہوریت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
"آپ جانتے ہیں کہ ہم جمہوری جدوجہد کے قائل ہیں لیکن ہماریہاں انتخابی نظام میں بے شمار خرابیاں ہیں ہم محنت کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔ ہمارے ملک کی گورننس کی خرابی کی اصل جڑ یہ ناقص انتخابی نظام اور انتخابی مشینری ہے۔اس نظام کو بہترین بنانے کا کام ہم تنہا نہیں کر سکتے بلکہ اس کیلئے ہمیں دوسری سیاسی و دینی جماعتوں کی مدد بھی درکار ہے"
طالبان خواتین کو گھروں میں بند کر کہ عملی زندگی سے دور رکھنے کی سوچ رکھتے ہیں جبکہ سراج الحق نے اس سوچ کی نفی کی اور کہا کہ: "حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی شرکت کے بغیر اسلامی انقلاب بر پا نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ملک کی ترقی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے ہمیں اس ملک کے سافٹ امیج کیلئے ہر طبقہ میں خو د اعتمادی پیدا کرنی ہے"
انہوں نے پاکستانی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرنے کا عہد کیا اور اسے جہاد قرار دیا۔ "جو قوم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے اسلیے میں آپ سے وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہو جائیں۔جہاد ظالموں کیخلاف ،کرپشن کیخلاف، لاقانونیت کیخلاف ،لوڈشیڈنگ کیخلاف اور ہر استحصالی قوت کیخلاف جو انسانوں پر اپنی خدائی مسلط کرنا چاہتے ہیں"
یہ وہ سوچ ہے جو جماعت اسلامی کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی کا مظہر نظر آ رہی ہے ، تمام پاکستانیوں کی طرح میں بھی جماعت اسلامی کی اس مثبت سیاسی سوچ سے بہت پر امید ہوں کہ پاکستان کو ایسی ہی سوچ کی ضرورت ہے جو ہر قسم کی انتہا پسندی کو رد کر دے اور پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے جمہوری انداز میں جدو جہد کرنے کو اپنی ترجیح قرار دے۔

Wednesday 16 April 2014

MUHAMMAD(PBUH) NAME ON TREE IN KOTJAN MOHAMMAD SARAI MUGHAL 17-4-2014

MUHAMMAD(PBUH) NAME ON TREE IN KOTJAN MOHAMMAD SARAI MUGHAL 17-4-2014


MOHAMMAD NAME ON TREE IN KOT JAN MOHAMMAD SARAI MUGHAL 16-4-2014


MOHAMMAD NAME ON TREE IN KOT JAN MOHAMMAD SARAI MUGHAL 16-4-2014




MUHAMMAD NAME ON TREE IN KOT JAN MUHAMMAD SARAI MUGHAL/16-4-2014

MUHAMMAD NAME ON TREE IN KOT JAN MUHAMMAD SARAI MUGHAL/16-4-2014
 





 
 
 
 
 
 
 
 
 
 سرائے مغل ۔کوٹ جان محمد کے سکول لگے درخت میں لگی شاخوں اور پتوں سے نام’’ محمد ﷺ‘‘بن گیا ۔ درخت دیکھنے والوں کا تانتا بندھ گیا ۔ تفصیلات کے مطابق سرائے مغل کی نواحی بستی کوٹ جان محمد کے گورنمنٹ پرائمری سکول میں لگے آم کے درخت کی شاخوں اور پتوں نے ایسی شکل اختیار کر لی کہ دور سے دیکھنے سے وہ ( محمد ﷺ ) کا نام لکھا ہواصاف نظر آ تا ہے ۔ اس درخت کے بارے جب عوام کو پتا چلا تو دیکھنے والوں کا تانتا بندھ گیا ۔ دور دراز سے لوگ اس درخت پر لکھے ہوئے نام ﷺ کو دیکھنے کے لئے آ تے ہیں اور قدرت کے اس شاہکار پر سبحان اللہ ،سبحان اللہ پکار اُٹھتے ہیں ۔
درخت کی تصویر لف ہذا ہے ۔ 16-4-2014
 
 
 

Monday 14 April 2014

WHEAT POLICY 2014 AND KISAN BORD PAKISTAN PROTEST.14-4-2014


WHEAT POLICY 2014 AND KISAN BORD PAKISTAN PROTEST.14-4-2014






Wheat policy 2014 is defaulter.Artecle Nawai waqt 14-4-2014

Wheat policy 2014 is defaulter.Artecle Nawai waqt 14-4-2014
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2014-04-14/page-13/detail-4

گندم خریداری میں چھوٹے کاشتکار کی حق تلفی

14 اپریل 2014 0
 گندم خریداری میں چھوٹے کاشتکار کی حق تلفی

چوہدری فرحان شوکت ہنجرا
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے صوبے میں گندم خریداری مہم 2014 کی منظوری دیتے ہوئے کہا ہے کہ کاشتکاروں سے مقررہ نرخوں کے مطابق گندم کی خریداری کو یقینی بنایا جائے  اور چھوٹے کاشتکاروں کے حقوق کا بھر پور تحفظ کیا جاے گا ۔اجلاس میں صوبائی وزیر خوراک بلال یٰسین سمیت دیگر صوبائی وزرا ،محکمہ خوراک کے سیکرٹری و دیگر افسران بھی موجود تھے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ 15 اپریل سے مرکز خریداری گندم سے کاشتکاروں کو بار دانے کی تقسیم شروع کر دی جاے گی۔ اگر حکومت کی نیت صاف اور وہ میرٹ کے ٟٟلوگو ،،پر عمل کرے تو حکومت کی نیک نامی میں اضافہ ہو گا ۔ بار دانہ حاصل کرنے کے لیے کاشتکارپٹواری سے فرد حاصل کرنے کے بعد بینک میں مقررہ رقم جمع کروا کر جب گندم خریداری  مرکز پر محکمہ فوڈ کے عملہ کو رسید جمع کرواتے ہیں  ،اگر اسے اسی وقت سیریل نمبر جاری کر دیا جاے تو اسی ترتیب سے  میرٹ پر چھوٹے کاشتکارہوں یا بڑے ان کو با آسانی بار دانہ مل سکتا ہے،اور مڈل مین ،آڑھتیوں سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ اس عمل میں مرکز خریداری گندم پر کسان تنظیموں کے نمائندوں کا جو تقرر ہو تا ہے  وہ شفاف طریقے سے باردانہ اور گندم کی خریداری میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نمائندہ  جانتا ہے کہ فلاں کاشتکار کتنے رقبے کا مالک ہے اور وہ موقع پر 8 بوری فی ایکڑ کے حساب سے بخوبی عمل کروا سکتاہے ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ضلع کا ڈی سی او ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر(ڈی ایف سی)محکمہ مال کا تحصیلدار ،اسسٹنٹ کمشنر انچارج گندم خریداری مراکز اور کسان نمائندوں کی میٹنگ میں تمام امور طے کیے جائیں اور اس حوالے سے حکومت پنجاب ،سیکرٹری فوڈ،تمام اضلاع کے ڈی سی ا وز کو احکامات جاری کر دیں کہ وہ فورا تمام اسٹیک ہولڈرز کا اجلاس طلب کریں ۔وزیر اعلیٰ پنجاب کا یہ کہنا ہے کہ تمام صوبائی وزرا اور سیکرٹری صاحبان فیلڈ میں جا کر گندم خریداری مہم کی نگرانی کریں گے اور میں خود بھی مختلف سنٹرز پر جا کر صورتحال کا جائزہ لوں گا میرا ہیلی کاپٹر ،اور جہاز بھی گندم خریداری مہم کے دوران دور دراز علاقوں کے دوروں کے لیے دستیاب رہے گا۔ہم پہلے بھی گزارش کر چکے ہیں کہ  حکومت پنجاب نے ماڈل اتوا بازاروں کے ذریعے عوام الناس کو سہولتوں سے نوازا ہے۔ کاشتکار بھی  قوم کے خدمت گزار ہیں  ۔گندم مراکز کے سنٹرز کے قریب ان کے لیے بھی مناسب سہولتوں کا میکا نزم قائم کیا جائے۔ کیونکہ مشاہدے کی بات ہے کہ وہ گرمیوں کی دھوپ میں اپنی ٹرالیوں ،ٹریکٹرز پر بھوکے پیاسے بیٹھے رہتے ہیں حکومت ان کے لیے شامیانے لگا کر سرائے  بنائے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب  شہباز شریف  لاہور سے کچھ فاصلے پر نارنگ منڈی مرکز خریداری گندم سے معائنے  کا آغاز کریں۔
گندم کی فصل کی کٹائی سے قبل بارشوں سے زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس برس گندم کی بہترین پیداوار حاصل ہو گی حکومت پنجاب نے 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کیا ہے۔ حکومت کو یہ ہدف 50 لاکھ میٹرک ٹن کر دینا چاہیے۔  حکومت پنجاب نے حسب روایت امسال بھی پنجاب بھر کے ضلعی،تحصیل ہیڈ کوارٹر ز کی سطح پر کاشتکاروں کے درمیان گندم کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کے لیے کسانوںکے لیے کروڑوں روپے نقد انعام مقرر کیا ہے۔  محکمہ زراعت کے فیلڈ افسران و توسیعی عملے نے گندم کے نمائشی پلاٹ کے حوالے سے رجسٹریشن کا اجرا کیا  ہے ۔ محکمہ زراعت سال بھر  گندم کے صحت مند بیج،اس کی بوائی ، گندم کی فصل کی تیاری ،کھادوں کا تناسب، اس کا استعمال ،زرعی ادویات  اور بہترین پیداوار حاصل کرنے کے لیے کسانوں کی ہر سطح پر بھر پور راہنمائی کرتا ہے ۔ لہذا حکومت پنجاب کو چاہیے کہ کاشتکاروں کے ساتھ ساتھ ہر ضلع کے زراعت کے افسران و فیلڈ ورکرز میں بھی نقد کیش انعامات اور تعریفی سر ٹیفیکیٹ تقسیم کرے۔ کیونکہ زرعی پیداوار کے بہترین حصول میں محکمہ زراعت کا کلیدی کردار ہے۔دوسری جانب حکومت ،کاشتکاروں ،محکمہ زراعت کی طرح محکمہ خوراک کے افسران و خریداری مراکز پر گندم خریدنے کے عمل میں شفافیت کی بنا پر اور ٹارگٹ مکمل کرنے پر محکمہ خوراک کے افسران و اہلکاروں کے لیے بھی انعامات کا اہتمام کرے ۔ پنجاب کے جس ضلع میں سب سے زیادہ گندم کی پیداوار ہو اور کسانوں کو خریداری مراکز پر بہترین سہولتیں  بہم پہنچائی گئی ہوں اس ضلع کے ڈی سی او ،اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر عملہ کو بھی کیش انعامات اور تعریفی اسناد سے نوازے ۔اس سے افسران اور عملے میں مزید خدمت کرنے کا جذبہ ابھرے گااور ملک خوراک کے حصول معاشی طور پر خود کفیل ہوگا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی ہدایت پر چولستان کے بے زمین کاشتکاروں کی زندگی میں انقلاب لانے اور انہیں خوشحال کرنے کے لیے جامع ریلیف پیکج تیار کر لیا گیا ہے جس کے تحت چولستان کے بے زمین کاشتکاروں میں ساڑھے بارہ ایکڑ رقبہ کی اراضی مالکانہ حقوق پر الاٹ کی جائے گی بے زمین کاشتکاروں کو رقبہ الاٹ کرنا تو خوش آئند ہے لیکن حکومت  چولستان میں پہلے سے بسنے والوں کے لیے پانی کی فراہمی کا بندوبست بھی کرے۔ لاکھوں ایکڑ اراضی اور وہ بھی رتیلی اس کے لیے تو چھوٹے ڈیم کی ضرورت ہے ۔ لہٰذا پانی کے بغیر زر اعت نا ممکن ہے آپ چاہے پورا چولستان اور صوبہ سندھ کی حکومت پورا تھر بے زمین کاشتکاروں کو الاٹ کر دے پانی نہیں ہوگا تو سب کچھ خاک ہی تصور ہوگا ۔

Wednesday 9 April 2014

JAMAAT-E-ISLAMI.NEW AMEER SIRJAJ-UL-HAQ TOOK OATH.9-4-2014


JAMAAT-E-ISLAMI.NEW AMEER SIRJAJ-UL-HAQ TOOK OATH.9-4-2014

ارکان نے کوہ ہمالیہ سے زیادہ بوجھ ڈال دیا۔راستے سے ہٹوں تو سیدھا کردیں۔سراج الحق نے امارت کا حلف اٹھالیا


لاہور9 اپریل2014ء: امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہاہے کہ تمام سیاسی و دینی جماعتیں متحد ہو کر ایک چارٹر پر دستخط کریں تاکہ ملک کو آئین کے مطابق جمہوری انداز میں چلایا اور آمریت کا ہمیشہ کے لیے راستہ روکا جائے سکے ۔ پاکستان کاآئین اسلامی ہے جو معاشرے کو مضبوط اسلامی بنیادیں فراہم کرتاہے ۔ ملکی آئین کی بالادستی کے لیے تمام محب وطن قوتوں کو متحد ہوناچاہیے ۔ حکومت نے اپنے کم وسائل کے باوجود عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہے ۔ افواج پاکستان نے ملکی سلامتی اور سرحدوں کے دفاع کے لیے نامساعد حالات میں بھی بہترین خدمات سرانجام دی ہیں ۔ ملک میں ظلم و استبداد کار استہ روک دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے ۔ 65سال سے 5 فیصد اشرافیہ نے 95 فیصد عوام کو یرغمال بنا رکھاہے اور قومی وسائل پر قبضہ کیا ہواہے جبکہ 95 فیصد عوام تعلیم ، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ غریب کے بچوں کو کوڑے کے ڈھیروں سے رزق تلاش کرنا پڑتاہے ۔ عوام کو پانچ فیصد اشرافیہ کے خلاف متحد ہونا چاہیے ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے بدھ کی شام منصورہ میں اپنے اعزاز میں منعقد کی گئی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ قبل ازیں انہوں نے حلف امارت اٹھایا۔ سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض ادا کیے ۔ شیخ القرآن مولانا عبدالمالک نے اختتامی دعا کرائی ۔
سراج الحق نے کہاکہ ارکان جماعت نے مجھ سے بدرجہا بہتر لوگوں کے ہوئے ہوئے میرا انتخاب کرکے میرے کندھوں پر کوہ ہمالیہ سے زیادہ وزن لادیا ہے ۔ میں اپنے پیش روﺅں سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ ، میاں طفیل محمد ؒ، قاضی حسین ا حمد ؒ، اور سید منور حسن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اگر قرآن و سنت کے مطابق چلوں تو ارکان جماعت میرا ساتھ دیں اور اگر آئین و ستور کے راستے سے ہٹوں تو مجھے پکڑ کر سیدھا کردیں ۔ انہوں نے کہاکہ سید منور حسن نے جماعت اسلامی کی قیادت اس وقت سنبھالی جب خطہ بہت بڑے بحران سے دوچار تھا ۔ انہوں نے کہاکہ ہم امریکہ اور بھارت سمیت کسی غیر مسلم ملک کے خلاف نہیں ۔ امریکہ کی دنیا بھر میں اسلام اورامت مسلمہ کے خلاف پالیسیوں کے خلاف ہیں ۔ امریکہ موجودہ دور کا سب سے بڑا طاغوت ہے اور دنیا بھر میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہاہے ۔ امریکی سرپرستی میں بھارت کشمیر اور اسرائیل فلسطین میں معصوم مسلمانوں کو قتل کر رہا ہے اور ان کے ممالک پر قبضہ کیے ہوئے ہیں ۔
سراج الحق نے کہاکہ حکومت موقع سے فائدہ اٹھائے اور کامیاب مذاکرات کے ذریعے ملک میں قیام امن اور دہشتگردی کے خاتمہ کویقینی بنائے ۔ ہم سعود ی عرب کے فرمانروا اور خادم حرمین الشریفین سے احتراماً مطالبہ کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے مظلوم اور منتشر مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور مصر میں اخوان المسلمون پر جاری ریاستی دہشتگردی اور ظلم و تشدد کو رکوائیںاور صدر مرسی کی جمہوری حکومت کو بحال کروانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں ۔سراج الحق نے کہاکہ چین ہمارا ہمسایہ اور دوست ملک ہے اس کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بناناچاہتے ہیں ۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر جاری حسینہ واجد حکومت کے مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے سراج الحق نے کہاکہ عالمی برادری خصوصاً امت مسلمہ کے قائدین کو بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کی بلاجواز گرفتاریوں ، قید و بند اور پھانسیوں کے سلسلہ کو روکنے کے لےے موثر آواز بلند کرنا ہوگی ۔
قبل ازیں سابق امیر جماعت اسلامی سیدمنورحسن نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ سراج الحق کا امیر جماعت منتخب ہونا ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے ۔ تحریک کی قیادت درست ہاتھوں سے درست ہاتھوں میں منتقل ہوئی ہے ۔ ارکان و کارکنان کا فرض ہے وہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قرآن و سنت کے غلبے اور ملک و ملت کی خوشحالی کی اس تحریک کو آنے والی نسلوں تک پہنچائیں ۔ انہوں نے کہاکہ تمام سیاسی کارکنوں کو حکومت اور طالبان میں جاری مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا کرنی چاہیے ۔ انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی ایک اجتماعیت کا نام ہے جس نے ہمیشہ قومی موقف اپنایا ہے ۔ آج پوری قوم مذاکرات کی حمایت میں متحد ہو چکی ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ وزیراعظم نوازشریف نے انتہائی دانشمندی اور جرا ¿ت کا ثبوت دیتے ہوئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جو لوگ مذاکرات کی مخالفت کررہے تھے وہ ملک کو بدامنی اور انتشار کی دلدل میں دھکیلنا چاہتے تھے ، وہ ملک و قوم کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قانون پر عمل داری ختم ہو جائے تو لاقانونیت کو اختیار نہیں کرناچاہیے بلکہ قانون پر عملدرآمد کے لیے زیادہ حوصلے اور جرا ¿ت سے کام لیناچاہیے ۔
حلف برداری کی تقریب میں چاروں صوبائی امرا ، سیکرٹریز ، مرکزی نائب امرا اور ڈپٹی سیکرٹریز ،خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر ، وزیر صنعت شوکت علی یوسف زئی ، وزیر تعلیم ، وزیر بلدیات عنایت اللہ ، سینئر کالم نگاروں ، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی معروف شخصیات ، سیاسی و سماجی رہنماﺅں اور ہزاروں کارکنان جماعت نے شرکت کی ۔

Monday 7 April 2014

KISAN BORD PAKISTAN PROTESTED AGAINSHT FARMER ENMITY AND POLICIES.8-4-2014


KISAN BORD PAKISTAN PROTESTED AGAINSHT FARMER ENMITY AND POLICIES.8-4-2014



http://jamaat.org/ur/news_detail.php?article_id=4416

حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث کسان طبقہ محرومیوں کا شکار ہے


لاہور7 اپریل2014ء:پارلیمانی لیڈر اور امیر جماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹر سید وسیم اختر نے کہا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت کوملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اس وقت وطن عزیز کی 75فیصد آبادی کاتعلق اس شعبہ سے وابستہ ہے اور 47فیصد مزدور طبقے کاانحصار بھی اسی پر ہے۔حکمرانوں کی عدم توجہی کے باعث کسان طبقہ محرومیوں کا شکار ہے کوئی ان کوپرسان حال نہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نوازشریف حکومت دیگر شعبہ جات کی طرح اس شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دے۔انہوں نے کہاکہ بھارت پاکستان کے حصے کے دریاﺅں پر تیزی سے ڈیم تعمیر کر رہاہے تاکہ وہ ہمارے حصے کاپانی بھی اپنے کھیتوں کی طرف موڑ سکے۔ایک اندازے کے مطابق وہ اب تک74ڈیم تعمیر کرچکاہے۔بھارت کے کسان ”انڈین گورنمنٹ“سے کئی قسم کی مراعات حاصل کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ فی ایکڑ پیداوار ہم سے اچھی حاصل کررہے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کے حکمرانوں نے ہردور میں کسانوں اور زراعت سے وابستہ افراد کوریلیف دینے کی بجائے ان کا استحصال کیا ہے۔جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر سید وسیم اختر نے مزیدکہاکہ کسانوں پرمالیہ،آبیانہ،محصول ٹیکس،ٹال ٹیکس،یونین ٹیکس،ویلتھ ٹیکس اور زرعی ٹیکس لگاکر حکمرانوں نے اس شعبہ کی عملاً تباہی کردی ہے۔ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک آبیانہ میں700فیصد تک اضافہ کیاجاچکاہے۔تمام حکومتوں نے کسانوں کے مسائل میں کمی لانے کی بجائے ان میں اضافہ کیا ۔حالیہ توانائی بحران اور بھارتی آبی جارحیت نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کوختم کیاجائے تاکہ کسانوں کوکچھ ریلیف میسر ہوسکے

SHO BHAI PHERO CITY RAZA JAAFRI,PEER NAQEEB IN SUBDER.7-4-2014


SHO BHAI PHERO CITY RAZA JAAFRI,PEER NAQEEB IN SUBDER.7-4-2014