KASUR CHILD SEX SECANDLE.CONDEMNED BY JAMAAT ISLAMI KASUR, PAKISTAN COLUMNE 10-8-2015
سانحۂ قصور: پولیس کی شرمناک تاویلیں
قصور
پولیس نے بری کارکردگی کی جو تاریخ رقم کی ہے ،اُس کی پوری دنیا میں مثال
نہیں ملتی، حیرانی اس بات پر ہے کہ ڈی پی او اور آ رپی او سطح کے افسر
انتہائی ڈھٹائی سے اپنی شرمناک پولیسنگ کا دفاع کر رہے ہیں۔ پولیس آرڈر میں
کہاں لکھا ہے جب کسی جرم کی پولیس کو اطلاع ملے گی، تب وہ حرکت میں آئے
گی۔ پولیس کا کام تو جرائم کو روکنا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے قصور کے ایک
علاقے میں گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا تھا اور پولیس بے خبر تھی۔ بوس و کنار
کرتے جوڑوں کی تلاش میں گیسٹ ہاؤسوں پر چھاپے مارنے والی پولیس کو آخر
اتنے بڑے واقعہ کا علم کیوں نہیں ہو سکا۔ آر پی او کی یہ بات انتہائی مضحکہ
خیز ہے کہ پولیس نے مساجد میں اعلان کرائے کہ کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے تو
شہادت پیش کی جائے، مگر کوئی نہ آیا۔ دوسری طرف کئی ماہ سے اس مسئلے پر لوگ
سڑکوں پر آ کر احتجاج کر رہے ہیں۔ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، جس نے پولیس
کے اعلیٰ افسروں کو بھی حقائق پر پردہ ڈالنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ڈی پی او
کی اس بات پر سوائے ہنسی آنے کے اور کوئی تاثر نہیں اُبھرتا کہ وہ بے
گناہوں کو گرفتار نہیں کر سکتے، کیونکہ پولیس انصاف کے تقاضے پورے کرنا
چاہتی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ عام کیسوں میں تو پولیس شک کی بنیاد پر
درجنوں لوگوں کو پکڑ لیتی ہے۔ یہ اس قدر سنگین کیس ہے کہ جس نے معاشرے کی
بنیاد یں ہلا دی ہیں، اس میں اگر شک کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو حراست میں
لیا جانا ضروری ہے تو ایسی آئیڈیل قسم کی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں۔ مَیں
تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ کیس پاکستان میں سیاسی مداخلت اور دباؤ کی
بدترین مثال ہے، جس نے قانون کو بالکل ہی مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، حتیٰ کہ
تمام تر شواہد اور ویڈیوز سامنے آنے کے باوجود پولیس افسران ٹامک ٹوئیاں
مار رہے ہیں اور اس کے پس پردہ دور کی کوڑیاں لانے کی کوشش کر رہے ہیں،
تاکہ حقائق کو توڑ مروڑ سکیں۔
بچوں کے ساتھ زیادتی کے
اس قدر واقعات کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سامنے آنے والے اعداد
و شمار کے مطابق 400 بچوں کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کھیلا گیا اور ان کی
ویڈیوز بنا کر ورثاء سے کروڑوں روپے بھی بٹورے گئے ہیں۔ ورثاء دھائی دے رہے
ہیں کہ انہوں نے کئی بار پولیس کو اس کی اطلاع دی، مگر کارروائی نہ ہوئی۔
باقاعدہ ایف آئی آرز بھی کٹوائی گئیں، لیکن پولیس ٹس سے مس نہ ہوئی۔ حکومتی
جماعت کے ایک رکن اسمبلی کا نام سامنے آ چکا ہے، جس نے اس سارے معاملے کو
دبانے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ مظاہرین اس کا نام سرعام لے رہے
ہیں، لیکن مجال ہے کہ اس کے خلاف کسی سطح پر کوئی آواز اُٹھی ہو یا
کارروائی کی گئی ہو۔ پنجاب میں اگر قانون کی دھجیاں اسی طرح اڑائی جاتی
رہیں اور سیاسی مصلحتیں آڑے آتی رہیں تو پھر کراچی میں ہونے والا آپریشن
واقعی ایک خاص جماعت کے خلاف قرار پائے گا، کیونکہ اگر کراچی سے زیادہ
سنگین جرائم پنجاب میں ہوتے ہیں اور مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں
ہوتی تو یہ سمجھا جائے گا کہ پنجاب جرائم پیشہ لوگوں کی نپاہ گاہ بن گیا
ہے۔ وزیر اعلیٰ نے اس واقعہ کوٹیسٹ کیس نہ بنایا تو اپوزیشن اس کی بنیاد پر
پنجاب میں بھی رینجرز کے آپریشن کا تقاضا کرے گی اور یہ مطالبہ بلا جواز
بھی نہیں ہوگا۔
پولیس افسران اور معاملے کی سنگینی کو کم کرنے
والوں کی یہ منطق سمجھ سے بالا تر ہے کہ اس سانحہ کے پیچھے کچھ اور عوامل
بھی کار فرما ہیں۔ عوامل چاہے کچھ بھی ہوں، اصل بات تو یہ ہے کہ بچوں کے
ساتھ ظلم ہوا ہے اور ان کے ورثاء کو لوٹا گیا ہے، ذہنی اذیت کے ساتھ ساتھ
ان کی عزت و آبرو کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ
پولیس افسران اس سانحہ کے پس پردہ عوامل تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں مگرجو
حقائق سامنے آ چکے ہیں اُن پر کارروائی سے گریزاں ہیں، مگر یہ انتہائی
شرمناک صورت حال ہے۔ بالفرض یہ معاملہ زمین کے جھگڑے کا ہے تو کیا اس کی
وجہ سے اس بات کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ بچوں کے ساتھ شرمناک زیادتی
کی گئی۔ زمین کے ایشو کو گاؤں کے سینکڑوں بچوں کے ساتھ زیادتی سے کیسے جوڑا
جا سکتا ہے؟ پھر ویڈیو بنانا اور اسے دکھا کر والدین کو بلیک میل کرنا کس
طرح زمین کے جھگڑے کا شاخسانہ قرار پا سکتا ہے۔ اس کیس میں واضح طور پر
بدترین جرم سرزد ہوا ہے۔ مگر افسوس کہ ڈی پی او اور آر پی او کی سطح کے
افسران بھی ایس ایچ او کی سطح پر آ کر تاویلیں پیش کر رہے ہیں، میں سمجھتا
ہوں اس سانحہ کی سب سے بڑی ذمہ داری پولیس اور انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔
پولیسنگ سے ہم جرائم کو کنٹرول کرنے کی توقع کر سکتے ہیں، کیا دہشت گردوں
کو ڈھونڈنے کے لئے ایسی لولی لنگڑی پولیس کام آ سکتی ہے، جو جرم کا انکشاف
ہونے کے باوجود مساجد میں اعلان کر کے شہادتیں مانگ رہی ہو۔
برسوں پہلے لاہور میں جاوید اقبال نامی ایک درندے کا واقعہ سامنے آیا تھا
جو زیادتی کے بعد بچوں کو قتل کر کے ان کی نعشیں تیزاب کے ڈرم میں ڈال دیتا
تھا، جو اس میں گل جاتی تھیں۔ اس نے سو بچے قتل کرنے کا انکشاف کیا تھا۔
اس کیس میں بھی پولیس کی نا اہلی کھل کر سامنے آئی تھی، کیونکہ سو بچوں کی
گمشدگی کے حوالے سے درج ہونے والی ایف آئی آرز کے باوجود پولیس اس کے
گھناؤنے ’’شوق‘‘ کا کھوج لگانے میں ناکام رہی تھی۔ بجائے اس کے کہ پولیس اس
سے باقاعدہ تفتیش کرتی، اس کے جرم کی نوعیت اور طریقہ کار کو سمجھتی تاکہ
مستقبل میں ایسے کسی دوسرے درندے کو پنپنے نہ دیا جاتا، جاوید اقبال کو پُر
اسرار طور پر ہلاک کر دیا گیا۔ اگرچہ اس کے ساتھ ہی یہ کہانی اپنے انجام
کو پہنچ گئی، لیکن خوف کی ایک ختم نہ ہونے والی فضا معاشرے میں چھوڑ گئی۔
اب قصور کا یہ اندوہناک سانحہ سامنے آیا ہے، سوشل میڈیا پر لوگ کوس رہے ہیں
کہ ہم ایک درندہ صفت معاشرے کا حصہ ہیں۔ جہاں بھری پری آبادی میں طویل
عرصے تک درندگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ آوازیں اُٹھتی ہیں مگر قانون سویا
رہتا ہے۔ بظاہر یہ سانحہ ایک افسانوی کہانی لگتی ہے، کیونکہ یہ کیسے ہو
سکتا ہے کہ زندہ معاشرے میں جہاں قانون بھی موجود ہو اور قانون کے نام پر
کام کرنے والے ادارے بھی، میڈیا بھی ہو اور عدالتیں بھی اس کے باوجود لوگوں
کے بچوں کے ساتھ زیادتی کر کے ان کی ویڈیوز بنائی جاتی ہوں، اُنہیں بھتے
کے لئے استعمال کیا جاتا ہو، پولیس کے چھوٹے بڑے افسران اس کھیل سے آگاہ
بھی ہوں، لیکن ٹس سے مس نہ ہوتے ہوں، یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے سلطان راہی
پنجابی فلموں میں بندے پہ بندہ مارتا تھا اور کوئی اسے روکنے والا نہیں
ہوتا تھا، نہ پولیس نہ ہی عدالتیں، مگر یہاں تو ہم مملکت خداداد پاکستان
میں جی رہے ہیں جو اپنا 68 واں یوم آزادی منانے جا رہی ہے۔ اس آزاد مملکت
میں ہم نے یہ کیسا جنگل بنا رکھا ہے کہ جہاں سب کچھ ممکن ہے۔ پولیس جس قسم
کی کارکردگی دکھا رہی ہے اور پولیس افسران کا جو مائینڈ سیٹ ہے، اُسے
دیکھتے ہوئے تو مجھے نہیں لگتا کہ اس سنگین ترین سانحہ کا کوئی سنجیدہ نوٹس
لیا جائے گا اور ایک مضبوط چالان پیش کر کے درندہ صفت ملزموں کو قرار
واقعی سزا دی جائے گی۔ اچھا نہیں لگتا کہ ہر بات پر جنرل راحیل شریف کی
توجہ دلائی جائے، لیکن یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس کا اُنہیں بھی نوٹس لے
کر سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے انصاف کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ختم
کرانا چاہئے۔ یہ کام پنجاب میں قائم اپیکس کمیٹی کے ذریعے فوری اجلاس بلا
کے کیا جا سکتا ہے۔ ایسے اقدامات سے عوام میں احساسِ تحفظ پیدا ہوگا جو فی
الوقت انتہائی ضروری ہے,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
KASUR CHILD SEX SECANDLE.CONDEMNED BY JAMAAT ISLAMI KASUR, JANG BREAKING NEWS 9-8-2015
https://jamaat.org/ur/news_detail.php?article_id=6851
دھان کی خریداری کا بحران کسان کی معاشی تباہ کاری کا پیش خیمہ ثابت ہورہاہے
لاہور9 اگست2015ء:کسان راج تحریک کے
چئیرمین ارسلان خاکوانی نے کسان بورڈ گوجرانوالہ ڈویژن کے ہنگامی اجلاس کے
بعد میڈیا سے دھان کے بحران پرتبصرہ کر تے کہا ہے کہ کھاد،تیل اور بجلی کی
قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے چاہیے تو یہ تھا کہ اس سال دھان کی قیمت میں بھی
چالیس فی صد اضافہ کیا جاتا۔اب دھان کی منڈیوں میں آمد میں اضافے سے قیمت
یکدم انتہائی کم ترین سطح تک آ گئی ہے اور دھان کا کوئی خریدار نہیں جس سے
شدید بحران پیدا ہو چکا ہے جس کے خلاف کسان سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے
واضح کیا کہ رواں سیزن میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ، ٹریکٹر ٹیوب ویل میں
مہنگے ڈیزل اور بجلی کے استعمال ، یوریا کھاد کی بلیک مارکیٹنگ سے کسان پر
پہلے ہی کمر توڑ بوجھ پڑ چکا ہے جب کہ موجودہ دھان کی خریداری کابحران اس
کی معاشی تباہ حالی کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ
حکومت نان باسمتی دھان کی قیمت 1200روپے فی من اور سپر باسمتی کی 2500روپے
فی من مقرر کر کے پاسکو، محکمہ خوراک کے ذریعے خریداری سے قیمتوں میں
استحکام کی ضمانت دے اور کپاس کی خریداری کیلیے سرکاری سطح پر فوری انتظام
کرے وگرنہ کسان بد دل ہو کر کپاس اور چاول کی کاشت چھوڑ دین گے اور ملک
قیمتی زر مبادلہ سے محروم ہو جائے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اگر مطالبات
نہ مانے گئے تو 30 اگست کو گوجرانوالہ میں احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔
////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////
KASUR CHILD SEX SECANDLE.CONDEMNED BY JAMAAT ISLAMI KASUR, JANG BREAKING NEWS 8-8-2015
..................................................................................................................................................................
KASUR CHILD SEX SECANDLE.CONDEMNED BY JAMAAT ISLAMI KASUR, .NAWAIWAQT 8-8-2015 FRONT P[AGE
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2015-08-08/page-1/detail-7
گنڈا سنگھ والا (اشرف جاوید/ نیشن رپورٹ) قصور کے
دیہات میں 284 بچوں کو جنسی ہراساں کئے جانے کے حوالے سے سکینڈل منظر عام
پر آنے کے بعد اہل علاقہ میں شدید اشتعال پھیل گیا اور وہ احتجاج کیلئے
باہر نکل آئے تاہم مقامی انتظامیہ ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر اس معاملے کو
دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مبینہ طور پر 20 سے 25 افراد کے گروپ نے گذشتہ
برس کے دوران جنسی ہراساں کئے جانے کے معاملے میں بچوں کی 400 کے قریب
نازیبا ویڈیوز بھی بنا لی تھیں۔ لاہور سے 60 کلومیٹر دور گائوں حسین
خانوالہ میں سکول جانیوالی لڑکیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہ گینگ بچوں کے
گھر والوں کو بلیک میل کر کے بھتہ بھی وصول کرتا رہا۔ ڈی پی او رائے بابر
سعید نے ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ متاثرین کی شکایات پر ہم نے اب تک 6 افراد
کو گرفتار کر لیا ہے۔ 5 جسمانی ریمانڈ پر ہیں اور ایک نے قبل از گرفتاری
ضمانت کرا رکھی ہے۔ پولیس نے ثبوت کیلئے ویڈیوز ضبط کر لی ہیں۔ انہوں نے
کہا میں نہیں جانتا کہ ویڈیوز کس مقصد کیلئے بنائی گئی اور انکا ایجنڈا کیا
تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی ایم پی اے کے دبائو پر پولیس نے 50 لاکھ روپے
لیکر اس کیس کے مرکزی مشتبہ شخص کو رہا کر دیا ہے اور مقامی سیاستدان
متاثرہ افراد پر کیسز واپس لینے کا دبائو بھی ڈال رہے ہیں۔ ایف آئی اے نے
اس واقعہ کو شرمناک قرار دیا ہے۔ متاثرین کی شکایت کے مطابق ان سے گن
پوائنٹ پر ویڈیو بنوائی گئی تاہم ایسا لگتا ہے کہ بچوں کو پیسوں کا لالچ
دیکر اس کام میں ملوث کیا گیا۔ 35 سالہ ثریا بی بی نے اپنے 14 سالہ بیٹے کی
ویڈیو کو ختم کرانے کیلئے اپنا زیور بیچ کر بلیک میلرز کو 60 ہزار روپے
ادا کئے۔ ثریا بی بی نے بتایا انہوں نے 2011ء میں میرے بیٹے کی ویڈیو بنائی
اور ہم چار سال سے انہیں رقم ادا کر رہے ہیں۔ ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم اپنے
کو آگ لگا دیں۔ درجنوں دیہاتیوں نے قصور پریس کلب کے سامنے جمعہ کے روز
احتجاج کا پروگرام بنایا مگر کوئی کوریج کیلئے نہیں آیا۔ ایک مقامی رپورٹر
نے بتایا کہ پولیس نے درخواست کی تھی کہ قومی مفاد میں اس شرمناک واقعے کی
کوریج نہ کی جائے۔ ایک اور متاثرہ بچے کے مطابق اس کی ماں نے ایک سال قبل
گنڈا سنگھ والا پولیس سے رابطہ کیا مگر اسے خاموش کرا دیا گیا۔ گنڈا سنگھ
پولیس نے یکم جولائی کو 3 ایف آئی آرز اور 6 جولائی کو ایک ایف آئی آر
درج کی جو 15 افراد کیخلاف تھیں۔ 5 مشتبہ ملزم سرکاری ملازم ہیں جنہوں نے
ضمانت کرا لی ہے۔ کچھ روز قبل مرکزی ملزم کی رہائی کے بعد سینکڑوں دیہاتیوں
نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ ایک اور دیہاتی نے الزام لگایا کہ اس گھنائونے
عمل کے ملزم یہ ویڈیو بنا کر برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں فروخت کرتے
ہیں۔ ایک متاثرہ بچے کے مطابق اس شرمناک سکینڈل میں تنزیل الرحمن، عتیق
الرحمن، محمد یحییٰ، نسیم شیرازی شامل تھے اور اس نے شیرازی کو سکائپ پر
کسی سے بچوں کی ویڈیوز اور اس کے بدلے رقوم کی بات کرتے ہوئے سنا تھا۔ یہ
لوگ بیرون ملک سے ڈالرز کما رہے تھے۔
...................................................................................................................................................
KASUR CHILD SEX SECANDLE.CONDEMNED BY JAMAAT ISLAMI KASUR, DUNYA BREAKING NEWS
http://epaper.pknewspapers.com/daily-dunya-newspaper.html
قصور: 274 بچوں سے زیادتی کا اسکینڈل منظر عام پر آ گیا ، آٹھ ملزم گرفتار
ملک
کی تاریخ میں بچوں سے زیادتی کا سب سے بڑا اسکینڈل منظر عام پر آ گیا۔ چھ
سال سے سرگرم گینگ کی 274 بچوں سے زیادتی کی 400 ویڈیوز سامنے آ گئیں۔
پولیس حکام کہتے ہیں 8 ملزم پکڑ لیے ۔ صرف سات مقدمات درج کرائے گئے ۔ اصل
جھگڑا زمین کا ہے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب
کو پیش کر دی۔
قصور: (ویب ڈیسک، دنیا نیوز) اسے بچوں سے زیادتی کا ملکی
تاریخ میں سب بڑا اسکینڈل کہنا غلط نہ ہوگا ۔ قصور کے علاقے گنڈا سنگھ
والا میں 6 سال تک 21 رکنی گینگ بچوں سے زیادتی کرتا رہا اب تک بچے اور
بچیوں سے زیادتی کے 274 واقعات پیش آئے ۔ گینگ 17 برس سے کم عمر بچے اور
بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بناتا تھا ۔ متعدد بچوں کی ویڈیوز بھی بناکر ان
کے والدین کو بلیک میل بھی کیا جاتا رہا۔ والدین زیادتی کے خلاف درخواستیں
لے کر مقامی تھانے کے چکر لگاتے رہے لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ یہ واقعات
شاید یونہی چلتے رہے لیکن زیادتی کا شکار کچھ بچوں کے والدین کے صبر کا
پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ انہوں نے پہلے لاہور میں احتجاج کیا اور پھر پچھلے
ہفتے دیپالپور روڈ بلاک کر دی۔ 13 گھنٹے کے احتجاج کے دوران مظاہرین کی
پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں جس میں 2 ڈی ایس پی ، پولیس اہلکار اور متعدد
مظاہرین زخمی ہوئے ۔ والدین اور علاقہ مکینوں کے پرزور احتجاج کا وزیراعلیٰ
پنجاب نے نوٹس لے کر فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنا دی ۔ ایڈیشنل آئی جی پولیس
آپریشنز عارف نواز خان اور کمشنر لاہور ڈویژن عبداللہ سنبل پر مشتمل کمیٹی
نے تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کر دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق بچوں
سے زیادتی کے 8 ملزم گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ 15 نامزدملزموں کی گرفتاری کے
لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں جبکہ ڈی پی او قصور رائے بابر سعید کا موقف ہے
کہ پولیس کے پاس ایک ماہ کے دوران صرف 7 مقدمات درج کرائے گئے کسی بچی کے
ساتھ زیادتی نہیں ہوئی۔ تحقیقات کے دوران دو گروپوں میں زمین کا تنازع بھی
سامنے آیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے تمام ملزموں کو جلد از جلد گرفتار کرنے
کی ہدایت کی ہے۔
/////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////////
KASUR CHILD SEX SECANDLE.CONDEMNED BY JAMAAT ISLAMI KASUR, .NAWAIWAQT 6-8-2015
http://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/Lahore/2015-08-06/page-3/detail-14
مارا قصور یہ ہے کہ یہاں پیدا ہو گئے ہیں
ضلع قصور میں پولیس اور مظاہرین سے تصادم میں کئی پولیس
افسران اور ملازمین شدید زخمی ہوئے۔ پولیس کارروائی سے کئی لوگ بھی زخمی
ہوئے۔ ایک بندے کی ہلاکت کی خبر بھی آئی ہے۔ قصور کے قریبی گاﺅں حسین والا
میں کچھ شرپسند چھوٹے چھوٹے بچوں اور بچیوں کو ورغلا کے لے جاتے ہیں اور
مقررہ مقامات پر ان کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ وڈیو بناتے ہیں اور انہیں
بلیک میل بھی کرتے ہیں۔ بچے گھروں سے زیورات اور دوسری چیزیں چوری کرنے پر
مجبور ہوتے ہیں۔ یہ گھناﺅنا کاروبار بڑے عرصے سے جاری و ساری ہے تو کیا یہ
جرم بلکہ ظلم پولیس کی بے خبری میں ہو رہا ہے؟ تھانے والوں کو سب پتہ ہوتا
ہے کہ کیا کچھ کہاں کہاں ہو رہا ہے۔ ان کی ملی بھگت شراکت داری اور سرپرستی
کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔
جب وڈیوز وغیرہ کھلے عام لوگوں تک پہنچیں تو ایک کہرام مچ گیا۔ پولیس کے
ساتھ لوگوں نے مسلسل رابطہ کیا مگر ان کی طرف سے سرد مہری اور ظالمانہ بے
نیازی کے سوا کچھ نہ ملا۔ وہ ظالموں کے ساتھی ہیں۔
ایسی ایک وڈیو مجھے
برادرم مبین غزنوی اور کچھ لوگوں نے فراہم کی میں اسے پورا دیکھنے کی ہمت
نہیں کر سکا۔ کیا یہ فلم متعلقہ پولیس افسران وڈیرے سیاسی شخصیتیں ممبر
اسمبلی دیکھنے کی ہمت اپنے بچوں کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ میری دست بستہ گزارش
شہباز شریف سے ہے کہ وہ انہیں یہ وڈیو زبردستی دکھائیں۔ میری گزارش ہے کہ
آر پی او شہزاد سلطان یہ ”نیک کام“ اپنے خاندان کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ ڈی پی
او اور ڈی سی او قصور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر یہ وڈیو
دیکھیں اکیلے میں تو شاید وہ دیکھ چکے ہوں گے؟
جس ملک اور صوبے میں یہ
قیامت صغریٰ برپا ہو وہاں رہنے والے سارے کے سارے گنہگار ہیں ہم سب ذمہ دار
ہیں؟ سخت گیر اور بہترین منتظم مانے جانے والے شہباز شریف نے علاقے کے
دیہاتیوں اور پولیس افسران اور ملازمین کے تصادم کے بعد نوٹس لیا ہے۔ انہیں
پتہ ہی نہیں چلا کہ قصور میں کیا ہو رہا ہے۔ جب پولیس والوں کو تکلیف ہوتی
ہے تو سب کو پتہ چل جاتا ہے۔ کسی کو کیوں اس طرح کے ظلم و زیادتی کے
واقعات کا پتہ نہیں چلتا۔ اور اب پتہ چل ہی گیا ہے تو کیا ہو گا۔ چند دنوں
کے شور شرابے کے بعد خاموشی ہو جائے گی۔ لوگ بھول جائیں گے مظلوم بچے اور
ان کے گھر والے رو پیٹ کر خاموش ہو جائیں گے اور زندگی ویسے ہی چلتی رہے
گی۔ پولیس اپنا رویہ نہیں بدلے گی۔ وہ ظالموں اور مجرموں سیاسی اثر و رسوخ
اور پیسے والوں کی ساتھی رہے گی۔ اپنی نگرانی میں جرم اور ظلم کرائے گی۔
کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ہو گا۔
مگر اب دو تین ڈی ایس پیز تھانیدار
حوالدار اور سپاہی بری طرح زخمی ہوئے ہیں تو اس کے آگے بھی نوبت آ جائے گی
یہ بھی خبر آئے گی کہ فلاں تھانے پر حملہ ہو گیا ہے اور کئی پولیس والے
اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ اس طرح زندگی شرمندگی کب تک بنی رہے گی۔ زندگی
کو درندگی بنانے والے کب تک عیش کریں گے۔ ایسا تو مغربی معاشرے میں بھی
نہیں ہوتا جسے ہم بہت برا بھلا کہتے ہیں۔ ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں۔
جنگل
میں بھی ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی درندہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو درندگی کا نشانہ
نہیں بناتا تو انسان اور بااختیار انسان درندوں سے بدتر ہے۔
اور کچھ نہ
ہوا تو یہاں اللہ کا عذاب آئے گا اور عذاب ہر کسی کے لئے ہوتا ہے۔ مصنوعی
سیلاب عذاب نہیں ہے۔ مشتعل اور دشمن پانی سے کبھی کسی امیر کبیر وزیر شذیر
اور بے ضمیر کے گھر کی چوکھٹ بھی گیلی نہیں ہوتی غریب ہر سال ذلیل و خوار
ہوتے ہیں۔ میں تو سی سی پی او لاہور امین وینس اور ایس پی عمر ورک کو جانتا
ہوں پچھلے دنوں کچھ پولیس والوںسے خطاب کرنے کے لئے بھی مجھے بلایا گیا
تھا۔ اس طرح تھانہ کلچر بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ خدا کی قسم جب تک
پولیس افسران نہیں بدلیں گے تھانہ کلچر نہیں بدلے گا۔ پولیس افسران کو وزیر
اعلیٰ بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔
مظاہرے اور تصادم کے دوران ایم این اے
وسیم اختر ملک احمد سعید حاجی نعیم صفدر اور سب اراکین اسمبلی موقع پر پہنچ
گئے اور ”انصاف“ کی یقین دہانی کرائی۔ وہ پہلے کہاں تھے۔ انہیں لوگ اسی
لئے ووٹ دیتے ہیں کہ ان کے بچے درندگی کا شکار ہوں اور ظالم شکاریوں کی
سرپرستی افسران حکمران ممبران اور پولیس کے ظالمان کریں۔ میرے خیال میں
قصور کے سب اراکین اسمبلی افسران حکمران اور تھانیداران استعفیٰ دیںیا
انہیں نکال باہر کیا جائے۔ مجرموں کو سرعام پھانسی دی جائے اور ان کی لٹکتی
ہوئی لاشوں کو وہ بچے پتھر ماریں جن کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔
اخبارات
میں درندوں کے نام شائع ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سب انہیں جانتے ہیں۔
یہ بدقماش درندے بااثر لوگ ہیں۔ فہیم عامر، عابد سلیم، اختر شیرازی، عتیق
الرحمن، نسیم شہزاد، عثمان خالد، وسیم سندھی، عرفان فریدی، تنزیل الرحمن،
علی مجید، فیضان مجید وغیرہ وغیرہ۔ ان سے ایک کو بھی حسین والا اور قصور
پولیس نے گرفتار نہیں کیا۔ ان کے لئے ڈی پی او قصور کو بھی پوری طرح علم ہو
گا۔ اب یہ سلسلہ حسین والا کے گردونواح میں بھی پھیل چکا ہے۔ پولیس نے
سیاسی دباﺅ یا کسی لالچ میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ کیا پولیس والوں کے
اپنے بچے نہیں ہیں۔ ان میں سے خدانخواستہ کسی کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی ہوتی
تو اب تک حشر بپا ہو جاتا۔ کیا غریب ہونا اس ملک میں ایک جرم ہے بلکہ ظلم
ہے۔ اب جرم اور ظلم میں فرق مٹ گیا ہے۔ کیا یہ انسانوں کا معاشرہ ہے؟
میں
بڑے ادب سے بہت صلاحیتوں والے اپنے کاموں میں بہت مستعد شہباز شریف سے
گزارش کرتا ہوں کہ پنجاب میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو کیوں ہو رہا ہے۔ پولیس
ان کی بہت عزیز ہے تو وہ ان کی عزت کے لئے یہ کارکردگی دکھا رہی ہے۔ صرف
نوٹس لینا کافی نہیں ہے۔ وہ حسین والا اور قصور جائیں اور عبرتناک کارروائی
کی نگرانی خود کریں۔ وہ مظلوموں کے گھر جاتے ہیں انہیں دیکھ کے لوگ خوش
ہوتے ہیں مگر جرم اور ظلم بڑھتا جا رہا ہے۔ اب تو یہاں زندہ رہنے کو بھی جی
نہیں چاہتا۔ لوگوں کو نہ جینے دیا جاتا ہے نہ مرنے دیا جاتا ہے۔ یہ
صورتحال کب تک چلے گی۔ سردار آصف احمد علی اور خورشید محمود قصوری کا تعلق
بھی اس علاقے سے ہے۔ میرے محترم علامہ احمد علی قصوری اور وہ سب لوگ جو
قصوری اپنے نام کے ساتھ لکھتے ہیں کچھ کریں کچھ تو کریں۔ یہ توہین انسانیت
پر بس نہیں ہے تو کیا اس جرم کی سزا دین میں نہیں ہے؟
آخر قصور والوں کا
کیا قصور ہے۔ پولیس بے قصوروں کی دشمن ہے۔ کھلی کچہری اور بند کچہری میں
سب سے زیادہ فریاد اور شکایات پولیس کے خلاف ہوتی ہیں۔ ان کی زیادتیاں زبان
زدعام ہیں۔ ہمارے قبیلے کی نبیلہ غضنفر پنجاب پولیس کی ڈی پی آر ہیں۔
پولیس کی بہت بڑی وکیل ہیں۔ وہ قصور کے واقعے کے لئے کیا کہتی ہیں۔ آئی جی
پنجاب سکھیرا صاحب سے کہیں کہ یہ داغ پولیس کی پیشانی سے ہٹائیں۔ آپ کو
ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ برادرم مبین غزنوی سے میری گزارش ہے کہ وہ شرمناک
وڈیو میرے پاس سے لے جائیں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کی بات سن نہیں سکتا
پھر دیکھوں گا تو مر جاﺅں گا۔
Sugar Cane, Cotton, Rice, Wheat, Electrical Problems of Farmers in Pakistan, Latest Energy sources for Farmers of Pakistan, Environment Pollution, Water Resources,