JAMAAT-E-ISLAMI NEW AMEER SIRAJUL HAQ .ARTECLE NAWAI WAQT 15-4-2014
جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن کی جگہ سراج الحق کا انتخاب جماعت اسلامی کی فکر میں ایک انقلابی تبدیلی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ ایسی ہی ایک تبدیلی انیس سو ستاسی میں آئی تھی جب قاضی حسین احمد مرحوم جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تھے۔ قاضی حسین احمد ایک انتہائی متحرک شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے جماعت کے ٹہرے ہوئے پانی میں کنکر پھینک کر اسے حرکت دینے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ جماعت اسلامی کی سیاست کو جو رخ قاضی حسین احمد نے دیا اس سے جماعتِ اسلامی پاکستان کا رجحان تبدیل ہو گیا تھا۔ ان سے پہلے جماعت اسلامی عوامی جماعت بننے کے بجائے ایک الگ سیاسی فرقے کی شکل اختیار کر چکی تھی، خاص طور پر جنرل ضیاالحق کی آمریت کا ساتھ دینے اور اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم بن جانے کاالزام جماعت کے ساتھ اس طرح نتھی ہو گیا کہ عام افراد جماعت اسلامی سے دور دور ہی رہتے اور المیہ یہ تھا کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی کبھی ان فاصلوں کو مٹانے کی کوشش نہیں کی ، مگر قاضی حسین احمد نے جماعت کو حقیقی عوامی جماعت بنانے کیلئے انتھک کوششیں کیں اور وہ جماعت اسلامی کو اس کے مخصوص حلقوں سے اٹھا کر گلی کوچوں میں لے آئے ، جماعت کے روایت پسند ثقہ قسم کے حضرات کو انکی یہ پالیسی پسند نہ آئی اوران کی اس حوالے سے مخالفت بھی ہوئی مگر قاضی صاحب نے ہمت نہ ہاری، انہوں نے پہلی بار پاکستان کے مظلوموں کے حقوق اور عوام مسائل پر آواز اٹھائی ، نوئے کی دہائی میں پاکستان کے گلی کوچوں میں یہ نعرہ گونج رہا تھا کہ ظالمو قاضی آ رہا ہے۔ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو ایک عوامی رخ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کا عام آدمی جماعت اسلامی کو قاضی حسین احمد مرحوم کے حوالے سے جانتا ہے۔
انکے بعد سید منور حسن جماعت کے امیر منتخب ہوئے انکا دور اس حوالے سے یاد رکھا جائیگا کہ جماعت اسلامی ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کے طور پر سامنے آئی اور اسٹیبلشمنٹ کیساتھ اسکی باقاعدہ محاذ آرائی شروع ہو گئی، بدقسمتی سے اسکے ساتھ ہی جماعت اسلامی کی طالبان کے ساتھ نظریاتی وابستگی بھی سامنے آنے لگی۔ جن لوگوں کے ہاتھ پچاس ہزار پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جو اسلام کے نام پر ہر مخالف کا گلا کاٹنا عین شریعت سمجھتے ہیں ، جو نہ آئین کو مانتے ہیں اور نہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ، جماعت اسلامی کے امیر کا انکی حمایت کرنا اور انہیں اپنا بھائی قرار دینا ہر پاکستانی کی فہم سے بالاتر تھا ، مولانا مودودی کی قائم کردہ جماعت کو انتہا پسندوں کی پشت پر کھڑا دیکھ کر ہر پاکستانی حیران تھا کہاں سیدابوالاعلی مودودی کا فہم اسلام اور کہاں قبائلی سوچ رکھنے والے طالبان کے جنونی نظریات ، میڈیا کے ساتھ گفتگو میں بھی انکے بعض متنازعہ بیانات نے ہنگامہ کھڑا کیا جس سے ظاہر ہوا کہ انہیں اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا ہنر نہیں آتا۔ سید منور حسن کی اس سوچ کو خود جماعت اسلامی کے اندر پذیرائی نہیں ملی جس کا ثبوت جماعت کے ارکین کا امارت کیلئے انکے بجائے سراج الحق کا انتخاب کرنا ہے، میڈیا کے حلقوں نے تو اسے سید منور حسن کی شکست قرار دیا ہے۔ مگر نو اپریل کو منصورہ میں سراج الحق کی تقریب حلف برداری میں یہ منظر دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ نہ ہارنے والا روٹھا ہوا تھا اور نہ جیتنے والا اپنی کامیابی پر آپے سے باہر تھا ، سابق امیر سید منور حسن نے نئے امیر کو مبارکباد دی اور بڑے خوشگوار انداز میں پرانی باتوں کو دہرایا۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا کہ جماعت اسلامی کے پانچ ہزار اراکین نے امیر کے انتخاب میں اپنے ووٹ کیوں استعمال نہیں کئے اور جماعت اسلامی کی قیادت سے کہا کہ وہ ان سے رابطے کریں ، جیتنے والے امیر سراج الحق نے کہا کہ میں سید منور حسن سے کسی لحاظ سے بھی برتر نہیں ہوں نہ میں عالم ہوں نہ تقوی پرہیز گاری میں ان سے بہتر ہوں۔ یہ سوچ برطانیہ یا امریکہ میں تو عام ہے جہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت متواتر تبدیل ہوتی رہتی ہے مگر پاکستان میں یہ بات انوکھی لگتی ہے جہاں کوئی لیڈر جیتے جی پارٹی کی قیادت چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتا اور اس کے مرنے کے بعد بھی پارٹی کی قیادت خاندان کے اندر ہی رہتی ہے ، اسکی مثال پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان ، مسلم لیگ ن اور شریف خاندان ، عوامی نیشنل پارٹی اور غفار خان کا خاندان ، جمعیت علمائے اسلام اور مولانا مفتی محمود کے گھرانے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، یہ جماعتیں اپنے لیڈروں اور انکے خاندان کے بغیر کچھ معنی نہیں رکھتیں یعنی بقول اقبال…ع
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
تحریک انصاف نے اس روایت کو توڑ کر اپنی جماعت میں انتخاب کروائے مگر ان کا جو حال ہوا وہ ایڈہاک بنیادوں پر جہانگیر ترین کی سیکرٹری جنرل کے عہدے پرنامزدگی کی شکل میں سب کے سامنے ہے جبکہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن پارٹی انتخابات کے بارے میں کہتے ہیں کہ پیسہ جیت گیا اور جنون ہار گیا۔ جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی یہ مانتے ہیں کہ جماعت اسلامی پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے کہ اس جماعت کے اندر مکمل جمہوریت قائم ہے ،امیر کا انتخاب جماعت کے ارکین کرتے ہیں اور جماعت کے اندر احتساب کا بھی ایک موثر نظام قائم ہے اور اس کا نظم بھی مثالی ہے۔ مختلف ادوار میں کچھ اراکین کے جماعت اسلامی سے اختلافات بھی ہوئے اور وہ جماعت سے کنارہ کش بھی ہو گئے، مگر کہتے ہیں لوگ جماعت سے نکل جاتے ہیں مگر جماعت انکے اندر سے نہیں نکلتی اسی لیے جماعت اسلامی میں کبھی کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنا۔ منصورہ میں نومنتخب امیر سراج الحق کی تقریر سنتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ اب جماعت اسلامی کی عملی اور فکری سیاست میں ایک بڑی گہری تبدیلی رونما ہونے والی ہے، سید منور حسن کے دور میں طالبان کی سوچ سے نزدیکیوں کی وجہ سے جماعت اسلامی جس جمود اورسیاسی تنہائی کا شکار ہو گئی تھی وہ اب ختم ہونے والا ہے۔ سراج الحق کی تقریر میں کچھ اہم نکات ایسے تھے جو اس انقلاب کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو ان کے دور میں نظر آ رہا ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے سابق امیر سید منور حسن کی فکر سے مکمل اختلاف کرتے ہوئے طالبان کی سوچ کو رد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ
"ہم غیر جمہوری ،غیر آئینی اور غیر قانونی طریقوں کے ذریعے ملکی قیادت کو تبدیل کرنے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہم ایک پْرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے انقلاب چاہتے ہیں، سید ابوالاعلیٰ مودوی کی فکر کسی قسم کے تشدد، سازش اور خفیہ تحریک کے ذریعے سے انقلاب بر پا کرنے سے روکتی ہے۔ جماعت اسلامی پہلے دن سے اسی نظریے پر کاربند ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑیں نہیں پکڑ سکتا جب تک لوگوں کے خیالات اور رویے تبدیل نہ ہوں۔ مصنوعی نعروں سے انقلاب بر پا نہیں ہوتے بلکہ ہمیں حقیقی معیار قائم کر کے اْسے حاصل کرنے کی جدو جہد کرنا ہو گی"۔
سراج الحق نے طالبان کی اس سوچ کو بھی رد کر دیا کہ آئین پاکستان غیر اسلامی ہے اور وہ اسے نہیں مانتے، نو منتخب امیر نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ: " آئین پاکستان کے دائرے میں اور عوام کی مرضی سے انقلاب لانا چاہتے ہیں کیونکہ پائیدار تبدیلی کیلئے قوم کے ذہن کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور آئین پاکستان ایک اسلامی آئین ہے جو اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے" …امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے انتہا پسندوں کی طاقت کے زریعے اسلامی نظام کے نفاذ کی سوچ کو بھی مسترد کر دیا اور انہوں نے جمہوریت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
"آپ جانتے ہیں کہ ہم جمہوری جدوجہد کے قائل ہیں لیکن ہماریہاں انتخابی نظام میں بے شمار خرابیاں ہیں ہم محنت کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔ ہمارے ملک کی گورننس کی خرابی کی اصل جڑ یہ ناقص انتخابی نظام اور انتخابی مشینری ہے۔اس نظام کو بہترین بنانے کا کام ہم تنہا نہیں کر سکتے بلکہ اس کیلئے ہمیں دوسری سیاسی و دینی جماعتوں کی مدد بھی درکار ہے"
طالبان خواتین کو گھروں میں بند کر کہ عملی زندگی سے دور رکھنے کی سوچ رکھتے ہیں جبکہ سراج الحق نے اس سوچ کی نفی کی اور کہا کہ: "حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی شرکت کے بغیر اسلامی انقلاب بر پا نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ملک کی ترقی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے ہمیں اس ملک کے سافٹ امیج کیلئے ہر طبقہ میں خو د اعتمادی پیدا کرنی ہے"
انہوں نے پاکستانی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرنے کا عہد کیا اور اسے جہاد قرار دیا۔ "جو قوم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے اسلیے میں آپ سے وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہو جائیں۔جہاد ظالموں کیخلاف ،کرپشن کیخلاف، لاقانونیت کیخلاف ،لوڈشیڈنگ کیخلاف اور ہر استحصالی قوت کیخلاف جو انسانوں پر اپنی خدائی مسلط کرنا چاہتے ہیں"
یہ وہ سوچ ہے جو جماعت اسلامی کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی کا مظہر نظر آ رہی ہے ، تمام پاکستانیوں کی طرح میں بھی جماعت اسلامی کی اس مثبت سیاسی سوچ سے بہت پر امید ہوں کہ پاکستان کو ایسی ہی سوچ کی ضرورت ہے جو ہر قسم کی انتہا پسندی کو رد کر دے اور پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے جمہوری انداز میں جدو جہد کرنے کو اپنی ترجیح قرار دے۔
جماعت اسلامی۔۔ نیا امیر نئی سوچ http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/15-Apr-2014/296020
جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن کی جگہ سراج الحق کا انتخاب جماعت اسلامی کی فکر میں ایک انقلابی تبدیلی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ ایسی ہی ایک تبدیلی انیس سو ستاسی میں آئی تھی جب قاضی حسین احمد مرحوم جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تھے۔ قاضی حسین احمد ایک انتہائی متحرک شخصیت کے مالک تھے اور انہوں نے جماعت کے ٹہرے ہوئے پانی میں کنکر پھینک کر اسے حرکت دینے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ جماعت اسلامی کی سیاست کو جو رخ قاضی حسین احمد نے دیا اس سے جماعتِ اسلامی پاکستان کا رجحان تبدیل ہو گیا تھا۔ ان سے پہلے جماعت اسلامی عوامی جماعت بننے کے بجائے ایک الگ سیاسی فرقے کی شکل اختیار کر چکی تھی، خاص طور پر جنرل ضیاالحق کی آمریت کا ساتھ دینے اور اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم بن جانے کاالزام جماعت کے ساتھ اس طرح نتھی ہو گیا کہ عام افراد جماعت اسلامی سے دور دور ہی رہتے اور المیہ یہ تھا کہ جماعت اسلامی کی قیادت نے بھی کبھی ان فاصلوں کو مٹانے کی کوشش نہیں کی ، مگر قاضی حسین احمد نے جماعت کو حقیقی عوامی جماعت بنانے کیلئے انتھک کوششیں کیں اور وہ جماعت اسلامی کو اس کے مخصوص حلقوں سے اٹھا کر گلی کوچوں میں لے آئے ، جماعت کے روایت پسند ثقہ قسم کے حضرات کو انکی یہ پالیسی پسند نہ آئی اوران کی اس حوالے سے مخالفت بھی ہوئی مگر قاضی صاحب نے ہمت نہ ہاری، انہوں نے پہلی بار پاکستان کے مظلوموں کے حقوق اور عوام مسائل پر آواز اٹھائی ، نوئے کی دہائی میں پاکستان کے گلی کوچوں میں یہ نعرہ گونج رہا تھا کہ ظالمو قاضی آ رہا ہے۔ قاضی حسین احمد نے جماعت اسلامی کو ایک عوامی رخ دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کا عام آدمی جماعت اسلامی کو قاضی حسین احمد مرحوم کے حوالے سے جانتا ہے۔
انکے بعد سید منور حسن جماعت کے امیر منتخب ہوئے انکا دور اس حوالے سے یاد رکھا جائیگا کہ جماعت اسلامی ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ جماعت کے طور پر سامنے آئی اور اسٹیبلشمنٹ کیساتھ اسکی باقاعدہ محاذ آرائی شروع ہو گئی، بدقسمتی سے اسکے ساتھ ہی جماعت اسلامی کی طالبان کے ساتھ نظریاتی وابستگی بھی سامنے آنے لگی۔ جن لوگوں کے ہاتھ پچاس ہزار پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جو اسلام کے نام پر ہر مخالف کا گلا کاٹنا عین شریعت سمجھتے ہیں ، جو نہ آئین کو مانتے ہیں اور نہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں ، جماعت اسلامی کے امیر کا انکی حمایت کرنا اور انہیں اپنا بھائی قرار دینا ہر پاکستانی کی فہم سے بالاتر تھا ، مولانا مودودی کی قائم کردہ جماعت کو انتہا پسندوں کی پشت پر کھڑا دیکھ کر ہر پاکستانی حیران تھا کہاں سیدابوالاعلی مودودی کا فہم اسلام اور کہاں قبائلی سوچ رکھنے والے طالبان کے جنونی نظریات ، میڈیا کے ساتھ گفتگو میں بھی انکے بعض متنازعہ بیانات نے ہنگامہ کھڑا کیا جس سے ظاہر ہوا کہ انہیں اپنے جذبات پر قابو رکھنے کا ہنر نہیں آتا۔ سید منور حسن کی اس سوچ کو خود جماعت اسلامی کے اندر پذیرائی نہیں ملی جس کا ثبوت جماعت کے ارکین کا امارت کیلئے انکے بجائے سراج الحق کا انتخاب کرنا ہے، میڈیا کے حلقوں نے تو اسے سید منور حسن کی شکست قرار دیا ہے۔ مگر نو اپریل کو منصورہ میں سراج الحق کی تقریب حلف برداری میں یہ منظر دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ نہ ہارنے والا روٹھا ہوا تھا اور نہ جیتنے والا اپنی کامیابی پر آپے سے باہر تھا ، سابق امیر سید منور حسن نے نئے امیر کو مبارکباد دی اور بڑے خوشگوار انداز میں پرانی باتوں کو دہرایا۔ اسکے ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا کہ جماعت اسلامی کے پانچ ہزار اراکین نے امیر کے انتخاب میں اپنے ووٹ کیوں استعمال نہیں کئے اور جماعت اسلامی کی قیادت سے کہا کہ وہ ان سے رابطے کریں ، جیتنے والے امیر سراج الحق نے کہا کہ میں سید منور حسن سے کسی لحاظ سے بھی برتر نہیں ہوں نہ میں عالم ہوں نہ تقوی پرہیز گاری میں ان سے بہتر ہوں۔ یہ سوچ برطانیہ یا امریکہ میں تو عام ہے جہاں سیاسی جماعتوں کی قیادت متواتر تبدیل ہوتی رہتی ہے مگر پاکستان میں یہ بات انوکھی لگتی ہے جہاں کوئی لیڈر جیتے جی پارٹی کی قیادت چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتا اور اس کے مرنے کے بعد بھی پارٹی کی قیادت خاندان کے اندر ہی رہتی ہے ، اسکی مثال پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان ، مسلم لیگ ن اور شریف خاندان ، عوامی نیشنل پارٹی اور غفار خان کا خاندان ، جمعیت علمائے اسلام اور مولانا مفتی محمود کے گھرانے کی شکل میں ہمارے سامنے ہے، یہ جماعتیں اپنے لیڈروں اور انکے خاندان کے بغیر کچھ معنی نہیں رکھتیں یعنی بقول اقبال…ع
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
تحریک انصاف نے اس روایت کو توڑ کر اپنی جماعت میں انتخاب کروائے مگر ان کا جو حال ہوا وہ ایڈہاک بنیادوں پر جہانگیر ترین کی سیکرٹری جنرل کے عہدے پرنامزدگی کی شکل میں سب کے سامنے ہے جبکہ تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن پارٹی انتخابات کے بارے میں کہتے ہیں کہ پیسہ جیت گیا اور جنون ہار گیا۔ جماعت اسلامی سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی یہ مانتے ہیں کہ جماعت اسلامی پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اس حوالے سے ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے کہ اس جماعت کے اندر مکمل جمہوریت قائم ہے ،امیر کا انتخاب جماعت کے ارکین کرتے ہیں اور جماعت کے اندر احتساب کا بھی ایک موثر نظام قائم ہے اور اس کا نظم بھی مثالی ہے۔ مختلف ادوار میں کچھ اراکین کے جماعت اسلامی سے اختلافات بھی ہوئے اور وہ جماعت سے کنارہ کش بھی ہو گئے، مگر کہتے ہیں لوگ جماعت سے نکل جاتے ہیں مگر جماعت انکے اندر سے نہیں نکلتی اسی لیے جماعت اسلامی میں کبھی کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنا۔ منصورہ میں نومنتخب امیر سراج الحق کی تقریر سنتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ اب جماعت اسلامی کی عملی اور فکری سیاست میں ایک بڑی گہری تبدیلی رونما ہونے والی ہے، سید منور حسن کے دور میں طالبان کی سوچ سے نزدیکیوں کی وجہ سے جماعت اسلامی جس جمود اورسیاسی تنہائی کا شکار ہو گئی تھی وہ اب ختم ہونے والا ہے۔ سراج الحق کی تقریر میں کچھ اہم نکات ایسے تھے جو اس انقلاب کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو ان کے دور میں نظر آ رہا ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے سابق امیر سید منور حسن کی فکر سے مکمل اختلاف کرتے ہوئے طالبان کی سوچ کو رد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ
"ہم غیر جمہوری ،غیر آئینی اور غیر قانونی طریقوں کے ذریعے ملکی قیادت کو تبدیل کرنے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ہم ایک پْرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے انقلاب چاہتے ہیں، سید ابوالاعلیٰ مودوی کی فکر کسی قسم کے تشدد، سازش اور خفیہ تحریک کے ذریعے سے انقلاب بر پا کرنے سے روکتی ہے۔ جماعت اسلامی پہلے دن سے اسی نظریے پر کاربند ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑیں نہیں پکڑ سکتا جب تک لوگوں کے خیالات اور رویے تبدیل نہ ہوں۔ مصنوعی نعروں سے انقلاب بر پا نہیں ہوتے بلکہ ہمیں حقیقی معیار قائم کر کے اْسے حاصل کرنے کی جدو جہد کرنا ہو گی"۔
سراج الحق نے طالبان کی اس سوچ کو بھی رد کر دیا کہ آئین پاکستان غیر اسلامی ہے اور وہ اسے نہیں مانتے، نو منتخب امیر نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ: " آئین پاکستان کے دائرے میں اور عوام کی مرضی سے انقلاب لانا چاہتے ہیں کیونکہ پائیدار تبدیلی کیلئے قوم کے ذہن کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور آئین پاکستان ایک اسلامی آئین ہے جو اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے قیام کیلئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے" …امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے انتہا پسندوں کی طاقت کے زریعے اسلامی نظام کے نفاذ کی سوچ کو بھی مسترد کر دیا اور انہوں نے جمہوریت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
"آپ جانتے ہیں کہ ہم جمہوری جدوجہد کے قائل ہیں لیکن ہماریہاں انتخابی نظام میں بے شمار خرابیاں ہیں ہم محنت کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتے۔ ہمارے ملک کی گورننس کی خرابی کی اصل جڑ یہ ناقص انتخابی نظام اور انتخابی مشینری ہے۔اس نظام کو بہترین بنانے کا کام ہم تنہا نہیں کر سکتے بلکہ اس کیلئے ہمیں دوسری سیاسی و دینی جماعتوں کی مدد بھی درکار ہے"
طالبان خواتین کو گھروں میں بند کر کہ عملی زندگی سے دور رکھنے کی سوچ رکھتے ہیں جبکہ سراج الحق نے اس سوچ کی نفی کی اور کہا کہ: "حقیقت یہ ہے کہ خواتین کی شرکت کے بغیر اسلامی انقلاب بر پا نہیں ہو سکتا ہے اور نہ ملک کی ترقی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے ہمیں اس ملک کے سافٹ امیج کیلئے ہر طبقہ میں خو د اعتمادی پیدا کرنی ہے"
انہوں نے پاکستانی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرنے کا عہد کیا اور اسے جہاد قرار دیا۔ "جو قوم اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد چھوڑ دیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ذلت میں مبتلا کر دیتا ہے اسلیے میں آپ سے وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہو جائیں۔جہاد ظالموں کیخلاف ،کرپشن کیخلاف، لاقانونیت کیخلاف ،لوڈشیڈنگ کیخلاف اور ہر استحصالی قوت کیخلاف جو انسانوں پر اپنی خدائی مسلط کرنا چاہتے ہیں"
یہ وہ سوچ ہے جو جماعت اسلامی کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلی کا مظہر نظر آ رہی ہے ، تمام پاکستانیوں کی طرح میں بھی جماعت اسلامی کی اس مثبت سیاسی سوچ سے بہت پر امید ہوں کہ پاکستان کو ایسی ہی سوچ کی ضرورت ہے جو ہر قسم کی انتہا پسندی کو رد کر دے اور پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے جمہوری انداز میں جدو جہد کرنے کو اپنی ترجیح قرار دے۔
No comments:
Post a Comment