Friday, 12 December 2014

KISAN BORD PAKISTAN AGETATION FOR SUGER MILLS 12-12-2014


 KISAN BORD PAKISTAN AGETATION FOR SUGER MILLS .NEWS OF GENRAL COUNCLE IN NAWAIWAQT,EXPRESS,SHOHRAT,DUNYA,JAHAN_E_PAKISTAN..12-12-2014





JAMAAT ISLAMI SINDH AGETATED ON SUGER MILLS LOOT MAR.

http://www.urdupoint.com/business/news-detail/live-news-340780.html

وزیراعلیٰ سندھ نے شوگرمافیا کے دباؤ پر گنے کے کاشتکاروں کا استحصال ترک نہ کیا تو چین سے نہیں بیٹھ سکیں گے، معراج الہدیٰ ،
جماعت اسلامی سندھ کے کسانوں اور ہاریوں کے ساتھ ہے اور وہ ان کے حقوق کے لئے ہر ممکن جدوجہد جاری رکھے گی

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12دسمبر۔2014ء)امیر جماعت اسلامی سندھ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ نے شوگرمافیا کے دباؤ پر گنے کے کاشتکاروں کا استحصال ترک نہ کیا گنے چاول اور دیگر فصلوں کی مناسب قیمتوں کی فراہمی کو یقینی نہ بنایا تو وہ وزیراعلیٰ ہاؤس میں چین سے نہیں بیٹھ سکیں گے جماعت اسلامی سندھ کے کسانوں اور ہاریوں کے ساتھ ہے اور وہ ان کے حقوق کے لئے ہر ممکن جدوجہد جاری رکھے گی۔جماعت اسلامی ضلع حیدرآباد کے زیراہتمام حیدرچوک پر حکومت اور شوگرملوں کی طرف سے گنے کے کاشتکاروں کا استحصال کرنے گنے کی طے شدہ قیمت 182 روپے سے کم کرکے 155 روپے کرنے اور سابقہ قیمت بحال ہونے کے باوجود اس پر عملدرآمد نہ ہونے اور بیشتر شوگر ملیں اب تک بند رکھنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جس کی قیادت امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے کی جبکہ سندھ آبادگار بورڈ کے صدر عبدالمجید نظامانی، جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری عبدالوحید قریشی، امیر جماعت اسلامی ضلع حیدرآباد حافظ طاہرمجید، سابق امیر جماعت اسلامی مشتاق احمد خان، ڈاکٹر سیف الرحمن، مشتاق نظامانی اور دیگر شخصیات نے بھی شرکت کی، شرکاء بینر اور کتبے اٹھائے ہوئے تھے جن پر حکومت اور شوگرمافیا کی طرف سے ہاریوں کے حقوق سلب کرنے کے خلاف نعرے درج تھے جبکہ کسان ہاری دشمن پالیسی نہ منظور، سندھ حکومت شوگرمافیا کا ظلم ختم کرائے کے نعرے بھی لگائے گئے۔امیر جماعت اسلامی سندھ ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت شوگرمافیا کے ہاتھوں بے بس ہے اور زمینداروں اور ہاریوں کا بدترین استحصال کیا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ شوگرمافیا کے دباؤ پر گنے کی متفقہ 182 روپے کی قیمت 155 روپے کردی گئی اور جب بڑے پیمانے پر ردعمل ہوا تو حکومت کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا لیکن وزیراعلیٰ قائم علی شاہ گنے کی 182 روپے کی قیمت بحال کرتے ہوئے اس طرح شوگر مافیا سے اس قیمت کو تسلیم کرنے کے لئے ہاتھ جوڑ رہے تھے جیسے وہ اپنے پارٹی چیئرمین کی خوش آمد کر رہے ہوں، انہوں نے کہا کہ دسمبر گزر رہا ہے اس کے باوجود زیادہ تر شوگرملیں سندھ میں بند ہیں گنا کھیتوں میں کھڑا سوکھ رہا ہے جس سے سرمایہ دار کا منافع بڑھ رہا ہے اور زمینداروں کسانوں اور ہاریوں کے نقصان کا بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ تمام کے تمام منافع پر سرمایہ دار قبضہ کر رہے ہیں اور ہاریوں کسانوں کے گھروں میں بھوک اور افلاس کے ڈیرے ہیں ان کے بچے تعلیم اور علاج سے محروم ہیں، انہوں نے کہا کہ سندھ اور پاکستان کی حکومتیں سن لیں ہم ہاریوں اور کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں اگر گنے کی 182 روپے کی قیمت پر عمل نہ ہوا اور گذشتہ سال کی طرح دھان کی قیمت بھی ایک ہزار روپے من تک نہ دی گئی تو بڑے پیمانے پر احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا، انہوں نے کہا کہ حکمران سرمایہ دار مراعات یافتہ طبقات بلٹ پروف گاڑیوں اور اپنے جہازوں میں سفر کرتے ہیں جبکہ عوام کو انہوں نے غلام بنا رکھا ہے ان کے بچے بغیر علاج کے موت کے منہ میں جا رہے ہیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاسکو کو فعال کرکے کسانوں سے ان کا دھان خریدا جائے تاکہ وہ کم قیمتوں کے باعث بڑے خسارے سے بچ سکیں اور اسی طرح کھاد بیج زرعی ادویہ پر نمایاں سبسڈی دی جائے اور بجلی کی قیمتیں کم کی جائیں، انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی محنت کشوں ہاریوں اور کسانوں کے ساتھ جدوجہد میں شامل رہے گی اور ظالموں اور بھتہ خوروں کا خاتمہ کرکے غریب پسماندہ طبقات کو ان کے حقوق دلائے جائیں گے، انہوں نے کہا کہ بھتے میں جن یونیورسٹیوں کے قیام کا اعلان کیا گیا کہ وہ معلوم نہیں بنیں گی یا نہیں لیکن اس سے تعلیم کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔سندھ آبادگارڈ بورڈ کے صدر عبدالمجید نظامانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ جماعت اسلامی کے شکرگزار ہیں اس نے 65 فیصد ملکی آبادی سے تعلق رکھنے والے کسانوں ہاریوں کے حقوق کے لئے احتجاج کیا ہے، انہوں نے کہا کہ خصوصا سندھ کے حکمران انتہائی درجے کی حرص اور ہوس کا شکا رہیں وہ سب کچھ خود سمیٹ لینا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ہاریوں محنت کشوں اور غریبوں کو ایک لقمہ بھی نہ ملے، انہوں نے کہا کہ ملک میں 90 سے زائد شوگرملیں ہیں جن میں سے 50 پنجاب میں ہیں ہمیشہ روایتی طور پر سندھ میں پنجاب کے مقابلے میں تقریبا دو سے پانچ روپے تک گنے کی فی من زیادہ قیمت مقرر کی جاتی ہے جب پنجاب حکومت نے گنے کی قیمت 150 روپے مقرر کی تھی تو سندھ میں کم از کم 190 روپے ہونی چاہئے تھی کیونکہ سندھ میں پنجاب کے مقابلے میں فی من گنے سے 0.9 فیصد زیادہ چینی بنتی ہے، انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سندھ کے مقابلے میں ایک ماہ بعد گنے کا کرشنگ سیزن شروع ہوتا ہے سندھ میں یکم اکتوبر سے کرشنگ سیزن قانون کے مطابق شروع ہونا چاہیے لیکن کئی سالوں سے ایسا نہیں کیا جا رہا اور ڈیڑھ دو ماہ بعد ملیں چلتی ہیں، انہوں نے کہا کہ چینی مافیا اور بے رحم حکومت کو زمینداروں ہاریوں کسانوں کی بے بسی اور مشکلات کا ذرا بھی احساس نہیں ہے اور وہ انسانی اخلاقی اقدار سے بھی محروم ہے، انہوں نے کہا کہ افسوسناک بات ہے کہ جو 200 ڈاکٹر موت کے منہ میں جانے والے بچوں عورتوں اور بزرگوں کے علاج معالجے کے لئے اپنے خرچ پر تھرپارکر گئے تھے انہیں پولیس کے ذریعے وہاں سے نکال دیا گیا جبکہ سینکڑوں مریض ہاتھوں میں پرچیاں لئے معائنہ کرانے کے منتظر تھے یہ ظلم اور بے حسی کی انتہا ہے ایسے فرعونوں کو ضرور اس ظلم و بربریت کا حساب دینا ہو گا، انہوں نے کہا کہ تھرپارکر میں روزانہ بچے بوڑھے اور عورتیں موت کے منہ میں جا رہے ہیں لیکن حکومت اپنا فرض ادا کرنے میں تو مجرمانہ غفلت کر رہی ہے لیکن دوسروں کو بھی کام کرنے سے روک رہی ہے، عبدالمجید نظامانی نے کہا کہ حکومت سالانہ زمینداروں سے 135 ارب روپے وصول کرتی ہے اگر وہ چند ارب روپے خرچ کرکے چاول اپنے کاشتکاروں سے خرید لے تو وہ بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں اور 65 فیصد آبادی میں پیدا ہونے والا بحران رک سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک میں حکومتوں نے عالمی منڈی میں چاولوں کی قیمتیں گرنے کی وجہ سے خود کسانوں سے چاول خرید کر ان کو نقصان سے بچایا ہے اگر ہمارے حکمرانوں نے ایسا نہ کیا تو اس سے زراعت سے وابستہ لاکھوں خاندانوں کا بڑا نقصان ہو گا۔جماعت اسلامی سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری عبدالوحید قریشی نے کہا کہ جماعت اسلامی ہاریوں کسانوں محنت کشوں سمیت تمام مظلوموں کے ساتھ ہے حکمرانوں نے اگر اپنی عیاشیاں ختم کرکے زراعت کے لئے سبسڈی نہ دی تو اس سے بہت بڑا قومی نقصان ہو گا، انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے معلوم نہیں کہ وہ کب بنے گی لیکن حیدرآباد کو ایک سرکاری یونیورسٹی کی ضرورت ہے جس سے حیدرآباد ہی نہیں آس پاس اور زیریں سندھ کے طلبہ و طالبات بھی استفادہ کر سکیں۔ Sugar Cane, Cotton, Rice, Wheat, Electrical Problems of Farmers in Pakistan, Latest Energy sources for Farmers of Pakistan, Environment Pollution, Water Resources,

No comments:

Post a Comment