BHAI PHERO PHOOL NAGAR SP GROUP LAND MAFIA.21-6-2016
NAWAI WAQT COLUMNE 21-6-2016
قبضے چھڑانے کا وقت
ملائشیا کے سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کو کون نہیں جانتا۔ ایک عام سے ملک کو جدید ترقی یافتہ اور خوش حال بنانے میں ان کا بڑا اہم کردار تھا۔ ایک کامیاب سربراہِ حکومت ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر مہاتیر محمد ایک ممتاز دانشور اور ویژنری سٹیٹسمین بھی تھے۔ اکیسویں صدی کا آغاز ہوا تو کسی نے ان سے پوچھا کہ آنیوالی صدی اور جانے والی صدی میں کیا فرق ہو گا؟ ڈاکٹر صاحب ہلکا سا مسکرائے اور اپنی عادت کے مطابق سوال پوچھنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا کہ سب سے بڑا فرق تو یہ ہوگا کہ بیسویں صدی قبضوں کی صدی تھی لیکن اکیسویں صدی قبضے چھڑانے کی صدی ہو گی۔ سوال پوچھنے والے نے دوبارہ پوچھا کہ کس ملک میں قبضے چھڑائے جائینگے تو ڈاکٹر مہاتیر محمدنے کہا کہ ایسا دنیا کے ہر اس ملک میں ہو گا جہاں کرپٹ لوگ اقتدار پر قابض ہیں، لوگ نا اہل حکمرانوں سے اپنے اپنے قبضے اور ملک کی لوٹی ہوئی اربوں ڈالر کی ناجائز دولت چھڑائیں گے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد کی اس بات کو پندرہ سال گذر چکے ہیں لیکن جب میں آج پاکستان کے حالات دیکھتا ہوں تو ان کی دور بین نگاہوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دل کرتا ہے بلکہ خیال سا آتا ہے کہ یہ بات کرتے ہوئے انکے ذہن میں کہیں پاکستان تو نہیں تھا کیونکہ آج کے پاکستان پر مافیاز کا قبضہ ہے۔ لوگوں کی زمینوں سے لے کر عام استعمال کے پانی تک ہر چیز پر بدمعاشوں اور لٹیروں کا قبضہ ہے۔ سرکاری وسائل سے لے کر ایک عام آدمی کی عزت نفس بھی مافیائوں کے قبضے میں ہے۔ آپ کسی بھی قبضہ کا پتہ کرا لیں ، اس کا کھرا سیاست دانوں تک جائیگا۔ یوں تو پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد سے ہی ملک کرپٹ اور نا اہل بد عنوان سیاست دانوں کے چنگل میں پھنس گیا تھا اور شروع سے ہی پاکستان میں لوٹ کھسوٹ شروع ہو گئی تھی لیکن یہ پچھلے پچیس تیس سال میں بامِ عروج پر پہنچی ہے۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستان کا چپہ چپہ کرپٹ اور نا اہل سیاست دانوں اور انکے فرنٹ مین بزنس مینوں سے بھرا پڑا ہے، خاص طور پر سندھ کے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ وہاں بڑی سرجری کئے بغیر حالات کو درست کرنا اب ممکن نہیں رہا۔ پچھلے کئی سال سے سندھ کی سیاست پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے گرد گھوم رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے معاملات آصف علی زرداری کے قبضہ میں آنے کے بعد اس نے وفاق میں پانچ سال کی ایک مکمل ٹرم پوری کی جبکہ سندھ کی صوبائی حکومت کی پہلی کے بعد اب دوسری ٹرم بھی جاری ہے۔ ایک مشکوک وصیت کے ذریعہ پارٹی پر قبضہ کرنیوالے آصف علی زرداری نے کرپشن اور نا اہلی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ سندھ کا ہر محکمہ بھتہ ساز فیکٹری بنا دی گئی ہے جس کی سب سے بڑی پروڈکشن بھتہ اکٹھا کرکے حکمرانوں یا انکے ایجنٹوں تک پہنچانا ہے اور پھر اسے مختلف طریقوں سے بیرونِ ملک پہنچا دیا جاتا ہے۔ ان محکموں میں اعلی عہدے ان ہی لوگوں کو دئیے جاتے ہیں جو پیسے پہنچانے کا دیا گیا ٹارگٹ پورا کریں۔
سیاست میں ناکامی اور اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کیلئے افواجِ پاکستان کو ہدفِ تنقید بنانا کرپٹ اور نا اہل سیاست دانوں کا پرانا وطیرہ رہا ہے۔ یہ ایک گھسی پٹی تکنیک ہے اور ہر آئوٹ گوئنگ سیاست دان اسے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کا مائنڈ سیٹ وفاق میں انکی پچھلی حکومت کے اواخر میں سامنے آگیا تھا کہ اقتدار کے اس دور کو آخری سمجھتے ہوئے جتنی لوٹ مار ممکن ہو سکے ، کر لی جائے۔ اب اسی مائنڈ سیٹ کیساتھ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی آخری حکومت کر رہی ہے۔ اگر آصف علی زرداری کے ذہن میں مستقبل کی کوئی سیاست ہوتی تو وہ سندھ میںاچھی گوورننس کا سوچتے لیکن وہ اور انکے رفقاء سندھ میں بھی آخری سمجھتے ہوئے وہی کر رہے ہیں جو انہوں نے وفاق میں کیا تھا۔
سندھ میں رینجرز نے آپریشن ٹھیلے اور کھوکھے والوں کو پکڑنے کیلئے شروع نہیں کیا تھا بلکہ یہ آپریشن سندھ میں موجود ہر قسم کے مافیائوں سے قبضے چھڑانے کیلئے ہے جس میں سرکاری اور پرائیویٹ زمینوں پر قبضے، چائنہ کٹنگ، بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، گینگ وار، وائٹ کالر اور مالی جرائم اور نہ جانے کون کون سے مافیائوں سے عوام کی جان چھڑانی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمجھتی ہیں کہ یہ قبضے چھڑانا ان کیخلاف کارروائی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہی دونوں پارٹیاں ان جرائم میں ملوث ہیں۔ الطاف حسین اور آصف علی زرداری ایسے چیخ چلا رہے ہیں جیسے ان کی گردنیں بھاری بھرکم پیروں تلے آگئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تیر ہے اور یہ تیر اب کمان سے نکل چکا ہے۔ اب آصف علی زرداری یو ٹرن لیں یا ابائوٹ ٹرن، انکے رفقاء جو مرضی وضاحتیں پیش کرتے رہیں، کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہیں آتا۔فوج کیخلاف زہر اگلنے کے بعد جب انہیں بلنڈر کا احساس ہوا تو اسے کور کرنے کیلئے آصف علی زرداری نے جلد بازی میں ایک افطار ڈنر پر سیاسی طاقت کا جو مظاہرہ کرنا چاہا تھا اس میں بھی وہ ناکام رہے۔ جب دوسری سیاسی پارٹیوں نے اس میں آنے سے معذرت کر لی تو اسے اتحادیوں سے مشاورت کا نام دیا گیا۔
چوہدری شجاعت حسین نے بالکل ٹھیک کہا کہ اگر وہ یہ مشاورت بیان دینے سے پہلے کر لیتے تو آج یوں تنہا نہ ہوتے۔ آصف علی زرداری کی تقریر قابلِ مذمت تو تھی ہی لیکن اسکی ٹائمنگ بھی بہت زیادہ غلط تھی۔ اس دن آرمی چیف روس کے سرکاری دورے پر ماسکو میں تھے، بین الاقوامی اور علاقائی تناظر میں ہونیوالی نئی صف بندی میں پاکستان چین اور روس کیساتھ ایک نئی سٹریٹجک پوزیشن لینے جا رہا ہے جسکے بعد چین کی قیادت میں یہ پورا خطہ امریکی تسلط سے آزاد ہو جائیگا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی آرمی چیف نے روس کا سرکاری دورہ کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے جو مستقبل میں پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھے گا۔جنرل راحیل شریف نے ماسکو میں روس کی اعلی سیاسی و فوجی قیادت سے ساتھ ملاقاتیں اس نئی آزاد پالیسی کا تسلسل ہیں جس کی بنیاد آرمی چیف نے چند ہفتے قبل چین میں رکھی تھیں اور اس کا عملی ثبوت اگلے دن ہی سامنے آگیا جب روس اور چین نے پاکستان کو شنگھائی تنظیم کی مستقل رکنیت دیدی ہے۔اب پاکستان کے برکس میں شامل ہونے کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے۔ اس تناظر میںآصف علی زرداری کی تقریر سخت قابلِ اعتراض ہے بلکہ مجھے یہ شبہ بھی ہے کہ انہوں نے یہ تقریر امریکی شہہ پر کی ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی سے ویسے بھی امریکہ اور بھارت سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ روس سے واپس آنے کے بعد میں جنرل راحیل شریف کا خیبر ایجنسی میں اگلے مورچوں کے دورے کی فوٹیج دیکھ رہا تھا جس میں انکے چہرے پر عزم بہت زیادہ نمایاں تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے آرمی چیف نے حتمی فیصلہ کر لیا ہے کہ اب کسی قسم کی رعایت کسی کو نہیں دی جائیگی۔ پہلی جنگِ عظیم کے وقت برطانوی شاہ جارج پنجم کا ایک قول تاریخ کا حصہ ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں غداروں کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ جب ملک کی فوج دشمنوں سے برسرپیکار ہو تو کون ان کیخلاف غلط فہمیاں پھیلا رہا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے ٹھیک ہی کہا تھا، اکیسویں صدی قبضے چھڑانے کی صدی ہے، کرپٹ لوگوں سے اقتدار چھڑانے کی اورنا اہل حکمرانوں سے اپنے اپنے قبضے اور ملک کی لوٹی ہوئی اربوں ڈالر کی ناجائز دولت چھڑانے کی۔
..................................................................................................................................................................
BHAI PHERO PHOOL NAGAR SP GROUP LAND MAFIA.21-6-2016
http://www.paknewslive.com/kissan-board-18
............................................................................................................................................................................
Sugar Cane, Cotton, Rice, Wheat, Electrical Problems of Farmers in Pakistan, Latest Energy sources for Farmers of Pakistan, Environment Pollution, Water Resources,
No comments:
Post a Comment