Wednesday, 12 March 2014

KASHMIR AND INDIAN WATER WAR





کشمیر پر بھارتی تسلط ختم کرا کے ہی اسکی آبی دہشتگردی سے نجات پائی جا سکتی ہے

12 مارچ 2014 1
کشمیر پر بھارتی تسلط ختم کرا کے ہی اسکی آبی دہشتگردی سے نجات پائی جا سکتی ہے

سینٹ میں بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعات کو جامع مذاکرات کا حصہ بنانے کی قرارداد کی متفقہ منظوری

سینٹ نے بھارت کے ساتھ پانی کے تمام تنازعات کو جامع مذاکرات کا حصہ بنانے کی قرارداد گزشتہ روز اتفاق رائے سے منظور کر لی۔ یہ قرارداد سینٹ کی رکن صغریٰ امام کی جانب سے گزشتہ ماہ پیش کی گئی تھی جس پر مفصل بحث کے بعد ایوان بالا نے اس قرارداد کی متفقہ منظوری دے دی۔ قرارداد میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ پاکستانی دریاﺅں پر متنازعہ بھارتی ڈیمز کی تعمیر رکوانے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ سینٹ کے قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے اس قرارداد پر اپنی تقریر میں بتایا کہ بھارت کے ساتھ پانی کے تمام تنازعات کو پہلے ہی جامع مذاکرات کا حصہ بنایا جا چکا ہے۔ سنیٹر حاجی عدیل کے بقول پانی کے تنازعہ پر عالمی عدالت میں فیصلے ہمارے حق میں نہیں ہو سکے۔ قرارداد کی محرک صغریٰ امام نے کہا کہ پاکستان میں پانی کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جبکہ بھارت معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈیمز تعمیر کر رہا ہے۔ سنیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ بھارت نے ہم پر آبی دہشت گردی شروع کر رکھی ہے۔ سنیٹر مشاہد حسین نے استفسار کیا کہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی اتنی جلدی کیوں ہے۔ اس بحث کے بعد ایوان میںقرارداد پر رائے شماری کی گئی اور ہاﺅس میں موجود کسی رکن نے اس قرارداد کی مخالفت نہ کی چنانچہ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔
بھارت نے تو شروع دن سے ہی اس ملکِ خداداد کی آزادی اور خود مختاری کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا تھا کیونکہ بھارت کی ہندو لیڈر شپ کو اس کے اکھنڈ بھارت کے منصوبے کے برعکس بھارت کی کوکھ سے ایک آزاد اور خودمختار مملکت کی صورت میں پاکستان کا وجود نکالنا کسی صورت قبول نہیں ہوا تھا چنانچہ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو جہاں پاکستان کے جلد ہی دوبارہ ہندوستان میں شامل ہونے کے دعوے کرتے رہے‘ وہیں انہوں نے اپنے سازشی منصوبے کے تحت تقسیم ہند کے فارمولے کے برعکس کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا اور اسے متنازعہ بنا کر اقوام متحدہ جا پہنچے۔ ان کی جانب سے کشمیر کو متنازعہ بنانے کا مقصد شہ رگ پاکستان کو بھارتی انگوٹھے کے نیچے رکھنے کا ہی تھا تاکہ کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریاﺅں پر جب چاہے شب خون مار کر پاکستان کو پانی سے محروم کر دے اور اس کی دھرتی کو ریگستان میں تبدیل کرکے بھوک پیاس سے نڈھال اس سرزمین کو اپنی دستبرد میں لے آئے۔ اس سازش کی بنیاد پر بھارت کی کسی بھی حکومت نے نہ صرف مسئلہ کشمیر حل نہیں ہونے دیا بلکہ پاکستان بھارت تنازعات میں کشمیر کا تذکرہ بھی گوارا نہیں کیا جاتاکیونکہ بقول بھارت! کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے۔
بھارت کے ساتھ پاکستان کا تنازعہ بھی مسئلہ کشمیر ہی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور اگر تقسیم ہند کے وقت بھی اکثریتی مسلم آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہند کے فارمولے کی روشنی میں کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا جاتا تو قیام پاکستان کے بعد بھارت سے ہمارا کسی قسم کا تنازعہ ہی پیدا نہ ہوتا۔ کشمیر کے راستے آنیوالے دریا بھی ہمارے اپنے ہوتے اور ان دریاﺅں کے پانیوں پر بھی بلاشرکت غیرے ہمارا حق ہوتا۔ مگر بھارت نے کشمیر کو متنازعہ بنا کر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا اور پھر اپنے آئین میں ترمیم کرکے اسے باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا تو پاکستان کی سالمیت کیخلاف اسکی شروع دن کی سازشی ذہنیت بھی عود کر آئی جس کے تحت بھارت نے کشمیر کے راستے آنیوالے دریاﺅں کا پانی بھی روکنا شروع کر دیا۔ اصولی طور پر تو یو این قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام کا خود ارادیت کا حق تسلیم کرتے ہوئے عالمی برادری کو بھارت پر دباﺅ ڈال کر اس سے کشمیر پر استصواب کرا دینا چاہئے تھا مگر جن کی نیت اپنے ایجنڈے کے تحت پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کیخلاف صف آرا رکھنے کی تھی انہوں نے بھارت کی جانب جھکاﺅ بڑھا کر مسئلہ کشمیر کو دانستہ طور پر گھمبیر بنایا چنانچہ پانی کے تنازعہ پر پیدا ہونے والی پاکستان بھارت کشیدگی کو عالمی بنک نے 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے تحت اس طرح ختم کرانے کی کوشش کی کہ تین دریا مکمل طور پر بھارت کے حوالے کر دئیے اور باقی ماندہ تین دریاﺅں جہلم، چناب اور سندھ پر پاکستان کو پہلے ڈیم تعمیر کرنے کا حق دیا جبکہ پاکستان کے بعد ان دریاﺅں پر بھی بھارت کو ڈیم تعمیر کرنے کا حق دے دیا گیا۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ حکام نے سندھ طاس معاہدے میں ملنے والی اس معمولی سی رعایت کا بھی فائدہ نہ اٹھایا اور منگلا اور تربیلا ڈیم کے بعد کوئی نیا ڈیم تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی ہی نہ کی جبکہ دریائے سندھ پر کالاباغ ڈیم کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کو بھی ہمارے بعض مفاد پرست سیاستدانوں نے بھارتی ایما پر متنازعہ بنا دیا اور اسکی تعمیر کی صورت میں اسے ڈائنامائٹ مار کر تباہ کرنے کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس سے بڑی ملک دشمنی بھلا اور کوئی ہو سکتی ہے کہ ملک کو پانی سے محروم کرنے کے بھارتی سازشی منصوبے کو اپنی غیر تعمیری اور منفی سیاست کے ذریعے فروغ دیا جائے۔ مگر یہ سب کچھ اس ارضِ وطن پر ہوا اور سب سے افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے اپنے اپنے ادوار میں مصلحتوں اور مفاہمتوں کی سیاست کے تابع کالاباغ ڈیم کے مخالف معدودے چند عناصر کی ہٹ دھرمی کے آگے سر تسلیم خم کئے رکھا جس کا نتیجہ ہمیں بھارتی سازشوں کے عین مطابق مون سون کے دوران بھارت کے لائے گئے سیلاب کی تباہ کاریوں اور خشک موسم میں بھارت ہی کی پیدا کی گئی پانی کی قلت کے باعث بدترین خشک سالی اور تھر اور چولستان میں عملاً قحط کی فضا کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ ڈیمز تعمیر نہ ہونے سے ہمیں توانائی کے بدترین بحران کا بھی گزشتہ دو دہائیوں سے سامنا ہے۔ اس تناظر میں بھارت تو پاکستان کی سالمیت کمزور بنانے کی سازشوں میں کامیاب ہو رہا ہے مگر ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں اور بے تدبیر منصوبہ سازوں نے ابھی تک ہوش کے ناخن نہیں لئے۔ اب ہمیں تھر میں بدترین قحط کا سامنا ہے تو وفاقی وزراءخواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کو بھی یہ اعتراف کرنے کی توفیق ہوئی کہ کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر نہ ہوتا تو آج تھر میں بچے قحط کا شکار نہ ہوتے۔ اسی طرح 2011ءکے سیلاب کی ملک گیر تباہ کاریوں کے موقع پر اس وقت کی حکمران پیپلز پارٹی کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر مخدوم امین فہیم نے بھی اعتراف کیا تھا کہ اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوتا تو سیلاب سے سندھ کی تباہ کاریوں کی نوبت نہ آتی۔
کالاباغ ڈیم کے حوالے سے آبی ماہرین کی یہ سروے رپورٹس موجود ہیں کہ اس سے پانی کی قلت والے سندھ کے علاقے تھر اور جنوبی پنجاب کے چولستان کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا جہاں بھارت کی پانی روکنے والی سازش سے پیدا ہونے والی خشک سالی کا کالاباغ ڈیم کے پونڈز میںذخیرہ کئے گئے پانی کے ذریعے توڑ کیا جا سکتا ہے۔ یقیناً کالاباغ ڈیم ہی نہیں، دیگر ڈیمز کی تعمیر بھی ہماری ضرورت ہے مگر ہمارے حکمرانوں کی بے تدبیریوں اور مفاد پرست سیاستدانوں کی سازشوں کے نتیجہ میں اب تک کسی نئے بڑے ڈیم کی تعمیر کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اس کے برعکس بھارت نے سندھ طاس معاہدے میں ملنے والی رعائت سے بھرپور فائدہ اٹھا کر پاکستان کے حصے میں آنیوالے دریاﺅں پر بھی ڈیمز کے انبار لگا لئے ہیں جن میں بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کے ڈیزائن بھی سندھ طاس معاہدے کے برعکس اپنی مرضی کے تیار کرائے گئے۔ اس طرح بھارت پاکستان کے حصے کا زیادہ سے زیادہ پانی روکنے میں کامیاب ہوا مگر بدقسمتی سے ہمارے ماہرین ان بھارتی سازشوں کیخلاف کوئی جامع کیس بھی تیار نہ کر سکے۔ چنانچہ ہمیں بھارتی ڈیمز کی تعمیر کیخلاف عالمی بنک کے روبرو پیش کئے گئے اپنے مقدمات میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ وقت کو ضائع کرنے اور نقصان اٹھانے کے باوجود ہمارے حکمرانوں کو بھارتی آبی سازشوں کا توڑ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جبکہ ایشیائی ترقیاتی بنک کی گزشتہ ماہ جاری کی گئی رپورٹ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی گئی ہے کہ آئندہ چند برسوں میں پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ اس تناظر میں عالمی ماہرین ارضیات کا یہ عندیہ بھی درست نظر آتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اگلی جنگ پانی پر ہو گی۔ اگر آج ہمارے حکمران طبقات اور سیاستدانوں کو اس گھمبیر صورتحال کا ادراک ہو رہا ہے تو کیا محض قراردادیں منظور کرنے سے پانی کے آنیوالے ممکنہ بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں ایوان بالا کی قرارداد بے شک انتہائی اہمیت کی حامل ہے مگر محض قرارداد منظور کرکے مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ اس قرارداد کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بھارتی آبی دہشت گردی کا مضبوط کیس کی شکل میں قانونی اور کالاباغ ڈیم سمیت تمام ڈیمز کی تعمیر کی شکل میں عملی توڑ کرنے کا آغاز کر دینا چاہئے۔ پانی کی مطلوبہ فراہمی بلاشبہ ہماری بقا کی ضمانت ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ پانی کے تنازعہ میں کمزوری دکھائیں گے تو اپنی موت کو خود ہی دعوت دیں گے۔ ہم کشمیر پر بھارتی تسلط ختم کرا دیں تو ہمارے لئے کبھی پانی کا مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔
KASHMIR AND INDIAN WATER WAR.EDITORIAL NAWAI WAQT 12-3-2013

No comments:

Post a Comment