LETTER OF JAMAT E ISLAMI TO PRIME MINISTER NAWAZ SHAREEF.14-11-2013
http://jamaat.org/ur/news_detail.php?article_id=3796
(لیاقت بلوچ )
سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان
http://jamaat.org/ur/news_detail.php?article_id=3796
جماعت اسلامی پاکستان کی طرف سے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو لکھاگیا خط
محترم جناب میاںمحمد نواز شریف صاحب
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
اسلام آباد
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
اُمید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
امیرجماعت اسلامی پاکستان جناب سیدمنورحسن کے دو بیانات کو بنیاد بنا کر ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو مصنوعی اور گھمبیر فضا تیار کی گئی تھی اس میں پاکستان کے مو ¿قر قومی ادارے افواج پاکستان نے (بذریعہ ISPR)براہ راست ایک سیاسی جماعت کو جس انداز میں چارج شیٹ کیا، اس نے جماعت اسلامی کو مجبور کیا کہ اس پورے منظر نامہ میں آپ کو بطور سربراہ حکومت مخاطب کیاجائے۔ جماعت اسلامی پاکستان ،پاک فوج کے پورے احترام اور اس کی قربانیوں کے اعتراف کے باوجود اصولی بنیاد پر یہ سمجھتی ہے کہ افواج پاکستان سمیت تمام اداروں کو آئینی اور قومی سطح پراُن مسلمہ حدود کاپابند ہوناچاہیے۔جسے پاکستانی عوام کے اتفاق رائے، قومی نمائندوں کے اجماع نے بہت پہلے 1973ءکے متفقہ دستور کی شکل میں طے کردیاہے۔ پاکستان کی گذشتہ 60سالہ تاریخ اداروں کی اسی بے بسی اور طالع آزمائی کا بیک وقت شاہکار ہے۔ باشعور عوام ، آزاد عدلیہ اور میڈیا نے ایک تاریخی جدوجہد کے بعد اداروں کو اپنی حدود کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ جدوجہد بھی قوم سے مزید استحکام کا تقاضا کرتی ہے ۔ افواج پاکستان کے ترجمان کا براہ راست ایک سیاسی و مذہبی جماعت کو مخاطب کرنا (جس کی ماضی میں کوئی نظیرنہیں ملتی) مسلمہ دستوری تقاضوں سے ماور ا دکھائی دیتاہے۔ پاکستان میں مختلف عناصر، افراداور اداروں کی طرف سے شدید قسم کی بے ضابطگیاں تجاوز ، استحصال اور اظہار ہماری تاریخ میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں مگر اس پر کبھی بھی اس انداز میں مو ¿قر اداروں نے سوال نہیں اٹھائے !!!
جماعت اسلامی ایک سیاسی ، جمہوری اور آئینی جماعت ہونے کے ناطے اپنے آپ کو عوام اور قانون کی عدالت میں جوابدہ سمجھتی ہے۔ ہمارے سیاسی نمائندے وطن عزیز کے ہر پلیٹ فارم پر اس جوابدہی کے لیے تیار ہیں مگر یہ جوابدہی انہی قواعد و ضوابط کے تحت ہونی چاہیے جسے پاکستان کے مسلّمہ دستوراور جمہوری روایات نے متعین ومنضبط کردیاہے۔آپ خود ، پوری قوم اور ملک کے تمام انتظامی اور عسکری مو ¿ثر ادارے آگاہ ہیں کہ جماعت اسلامی کی قومی سلامتی، بیرونی مداخلت کی مزاحمت اور دفاع وطن کے لیے لازوال قربانیاں ہیں ۔ مشرقی پاکستان میں کارکنان کی وحدت پاکستان اور بھارتی جارحیت کے خلاف قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس جرم میں آج بھی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے کارکنان اور قیادت حُب الوطنی اور اسلام سے محبت کی وجہ سے مظالم اور سزائیں بھگت رہے ہیں ۔ اس حوالہ سے جماعت اسلامی پر تنقید کرنے والے حقیقت میں افواج پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ بانی ¿ پاکستان قائد اعظمؒ کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے کشمیر کو پاکستان کے لیے رگِ جاں قرار دیا ۔ جموں،کشمیر ،گلگت و بلتستان میں جماعت اسلامی کی قربانیوں ،نوجوانوں کے پاکیزہ خون کے نذرانوں ،کشمیری قیادت کی آزادی اور حقِ خودارادیت کے لیے خصوصاً بزرگ رہنما سید علی گیلانی کی جدوجہد سے کون انکار کرسکتاہے۔ آخرتاریخ کے ان حقائق کو ISPRکا ایک پریس ریلیز کیسے یکسر ختم کرسکتاہے ؟ قومی سلامتی اور پاکستان کی نظریاتی، جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور عوام کے دکھوں اور محرومیوں کے خاتمہ کے لیے ہماری جدوجہد جاری ہے ۔ اس لیے کہ یہ ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔
جماعت اسلامی اس امر پر اپنی تشویش کااظہار کرتی ہے کہ اس وقت جب ملک سنگین مسائل سے دوچا ر ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ نے افغانستان، عراق،پاکستان اور پوری دنیا کو اس آگ میں جھونک دیا ہے اس سے نکلنے کے لیے پاکستان کو پوری سیاسی اور عسکری قیادت کی تائیدمیسرآئی تھی تاکہ حکومت امن کے قیام کے سلسلہ میں اپنی کوششیں جاری رکھتی ۔ اسے سبوتاژ کرنے کے لیے امریکہ نے تازہ ترین ڈرون حملوں کی صورت میں جواقدام کیا ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے غیر متعلق ایشوز پر ہنگامہ برپا کرنے اور قوم و ملک کی توجہ کو اصل مسئلہ سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جماعت اسلامی اس امر کی دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کرتی ہے کہ وہ ایک دستوری اور جمہوری جماعت ہے جو اپنے اورملکی دستور و آئین کی پابند ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کے قیام اور شریعت مطہرہ کے نفاذ کے لیے ہم جمہوری اور دستور ی ذرائع سے تبدیلی ہی کو تبدیلی کا درست راستہ تسلیم کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اور ان عناصر کے طریقہ کار میں زمین وآسمان کا فرق ہے جو شریعت کو بھی طاقت کے ذریعہ نافذ کرنے کے مدّعی ہیں۔
جماعت اسلامی نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان پر فوج کشی کی اوّل دن سے مذمت کی ہے اور افغانستان سے امریکی و ناٹو افواج کے مکمل انخلاءکو علاقہ میں امن کے قیام کے لیے ضروری قراردیا ہے۔ سابق ڈکٹیٹر حکمران جنرل پرویز مشرف نے جس طرح پاکستانی قوم اور ملک کو اس آگ میں جھونکا ہے ہم نے تسلسل سے اس کی مذمت کی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارا موقف من و عن وہ ہے جو پارلیمنٹ کی 22 اگست 2008ءاور 14مئی 2011ءکی قرار دادوں میں بیان کیاگیاہے۔ جس کا اعادہ ایک بار پھر تمام جماعتوں نے 9ستمبر 2013ءکو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ بیان میں کیاہے۔
جماعت اسلامی کی نگاہ میں فوج ایک قومی اور دستوری ادارہ ہے جسے دفاع پاکستان کے لیے عوام کے منتخب نمائندوں کی پالیسی اور قراردادوں کو لے کر چلنا چاہیے۔ آئین پاکستان کی رو سے صدر پاکستان اس کے سپریم کمانڈر اور وزارت دفاع اس کے جملہ امور کی ذمہ دار ہے۔ دفاع پاکستان کے ضمن میں افواج پاکستان نے جو بھی خدمات انجام دی ہیں ان پر ہمیں اور پوری قوم کو فخر ہے۔ تاریخ کے تسلسل میں اسلام اور پاکستان کے لیے ہمارے جن افسروں اور جوانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے ان کی شہادت ہمارا تاریخی امتیاز اور قومی اثاثہ ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سابق حکمرانوں کی امریکہ نواز پالیسیوں کی بھاری قیمت قوم ادا کررہی ہے اور ہمارے دلیر جوان بھی !!نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی یہ جنگ جس طرح ہمارے قومی، انسانی اور معاشی وسائل کو چاٹ چکی ہے اس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری ملٹری اورسیاسی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ کیے جانے والے تمام اعلانیہ اور خفیہ ،تحریری اور زبانی معاہدات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ختم کرنے کا اعلان کرے۔ قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر خطیر غیر ملکی امداد وصول کرنے ، ناٹو افواج کو لاجسٹک اور اطلاعاتی رسائی فراہم کرنے کی پابندی کے بعد ہمارے حکمران کیونکر ڈرون حملوں پر اقوام عالم اور امریکہ سے احتجاج کرنے میں بھی حق بجانب ٹھہرتے ہیں۔ اصل مسئلہ سامراجی جنگ کا خاتمہ اور پاکستان سے اس کی گلوخلاصی ہے۔
جماعت اسلامی نے دہشت گردی کی ہر شکل کی ہمیشہ سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جب اور جہاں بھی معصوم انسانوں ، ریاستی و قومی اداروں ، مذہبی اعتبار سے مقدس مقامات اور اجتماعات جن میں مساجد ، امام بارگاہ، مدارس اور چرچ سبھی شامل ہیں ، کو نشانہ بنایا گیاہے۔ جماعت اسلامی نے اُسے غیر اسلامی ،غیر قانونی اور غیر انسانی عمل قرار دیا ہے۔ ملک میں جاری دہشت گردی کی لپیٹ میں جماعت اسلامی کے 17سے زائد ارکان نے جان کانذرانہ پیش کیا ہے۔ قومی اخبارات اور ذرائع ابلاغ اس بات کے گواہ ہیں کہ نہتے و پرامن شہریوں کے ساتھ ساتھ فوجی جوان اور افسروں کی شہادت پر افسوس اور مذمت کااظہار کرنے میں ذرا بھی تردد سے کام نہ لیا۔ میجر جنرل ثناءاللہ نیازی سمیت متعدد فوجی شہداءکے گھروں پرجماعت اسلامی کی قیادت نے بالمشافہ جا کر افسوس اور احترام کے جذبات کااظہار کیا ہے۔ ہمیں اس بات کا اظہار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ملک کے دفاع اور اس کے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ میں جماعت اسلامی کے کارکنان کی مادی خدمات کسی بھی دوسرے قومی ادارے سے کم نہیں۔ قومی افتاد ،آسمانی آفت اور بیرونی جارحیت پر جماعت اسلامی کے کارکنان نے اسے قومی فریضہ سمجھتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگائی جو تاریخ کا حصہ ہے اس پر ہم فخر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بھی ہیں۔
حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں جس طرح نشانہ بنایا گیا اس کی مذمت ملک کے ہر طبقہ نے بلا تخصیص کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ قومی اتفاق رائے پر حملہ ہے جس کے نتیجہ میں امن کی کوششوں کو قتل کیا گیاہے ۔ قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ دس سال سے جاری اس بے چہرہ اور درآمدشدہ جنگ میں جب قومی اتفاق رائے کرلیا گیا تو ایک ترتیب کے ساتھ تین چار واقعات کو بنیاد بنا کر اس اجماع کو تہہ و بالا کردیا گیا اور یہ ماضی میںہر اس موقع پر ہواہے جب بھی ریاست اور ادارے امن کے لیے کچھ نہ کچھ پیش رفت کرتے نظر آتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دو انٹرویوز اور کہے جانے والے چند جملوں کی بنیاد پر جماعت اسلامی کے دیرینہ موقف ،تاریخی کردار ،سیاسی جدوجہد کو نظر انداز کرنا کسی بھی طرح ایک باوقار قومی ادارے کے شایان شان نہیں ہے۔ ہم ایسی کسی بحث میں فریق بننے کو بھی قومی مفاد سے متصادم تصور کرتے ہیں جو قوم کو بانٹنے اور توجہ کو امن کی کوششوں سے ہٹا کر کسی اور سمت لے جائے جس کا خدشہ قوم کو گذشتہ کئی ہفتوں سے ہے۔ (مذاکرات کا یہ سفر منزل کی طرف ایک قدم اٹھائے بغیر ختم نہیں کردینا چاہیے ۔ ملک و ملت کے لیے مزید نقصانات کا باعث ہوگا۔)
اس وقت ملک کے مستقبل کا انحصار اس تباہ کن جنگ کے خاتمے پر ہے جس نے پوری قوم کو گزشتہ دس سال سے اپنی لپیٹ میں لیا ہواہے نہ کہ فروعی ضمنی مباحث کو طول دینے میں ، جماعت اسلامی پوری قوم اوربالخصوص سیاسی وعسکری قیادت سے اپیل کرتی ہے کہ وہ توجہ کو اصل مسئلہ پر مرکوز کرے۔ امریکہ نے افغانستان میں بارہ سالہ ناکامی کے بعد بہت ہوشیاری اور چالاکی سے محاذ جنگ کو پاکستان میں منتقل کردیاہے۔ پوری دنیا میں سفارتی ناکامی اورعسکری شکست کی جھنجھلاہٹ اس نے پاکستانی ریاست پر اتاری ہے ۔ امریکی ذرائع ابلاغ ، تھنک ٹینکس اور سابق اعلیٰ امریکی سفارتکار افواج پاکستان اور افغانستان میں پاکستان کے کردار کے حوالہ سے جو خیالات رکھتے ہیں وہ اب بالکل پبلک ہیں۔اس کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کو تقسیم کرکے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے جماعت اسلامی کاموقف بالکل واضح ہے ۔ غیر ملکی افواج کو وہاں سے اپنے مفادات سمیت نکلنا چاہیے۔ پاکستان اور ہمسایہ ملک سمیت اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو افغان عوام کی مرضی کے مطابق حقیقی نمائندہ حکومت بنانے میں ممکن حد تک تعاون کرناچاہیے ۔جبکہ پاکستان میں مذہبی و عوامی مقامات پر معصوم عوام اور قومی فرائض کی بجا آوری پر مامور ملازمین پر حملوں کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے جنگ کو پہلے قبائلی علاقوں اور پھرپورے ملک میں گھسیٹ لانے کی ذمہ داری امریکہ کے شاطرانہ ذہن کے ساتھ ساتھ ہمارے پالیسی سازوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ جماعت اسلامی کو طالبان کا” سیاسی ونگ“ کہنے والے ذرائع ابلاغ اور اہل دانش کو یاد دلانا مناسب ہوگاکہ پیپلز پارٹی کی عوامی حکومت میں وزیرداخلہ نے انہی طالبان کو ”اپنا بچہ “ قرار دیا بعد ازاں ہمارے ہی اداروں نے ”اچھے اور بُرے طالبان“ کی اصطلاح وضع کی افغانستان میں مجاہدین یا طالبان کی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے میں خود پاکستانی حکومت ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پیش پیش تھی۔
جماعت اسلامی اصولی بنیادوں پر سمجھتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن اور پاکستان میں مذاکرات کے ذریعے امن کی کاوشوں کو مستحکم کیے بغیر ہم دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی سے لے کر جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف سے لے کر جمعیت علمائے اسلام نے بھی اپنی علیحدہ علیحدہ قرار دادوں اور آل پارٹیز کانفرنس میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کے راستے کو بہترین دستیاب حل قرار دیا ہے اور یہی جماعت اسلامی کاموقف ہے مگر بیرونی دباﺅ کی ذرا سی تپش پر ہماری حکومت اور ادارے اس قومی اتفاق رائے سے منحرف ہونے میں دیر نہیں لگاتے ۔ یہ جنگ اگر ہماری ہے تو اسے ہمیں زمینی حقائق اوراپنے قومی فیصلوں کے تحت لڑنا ہوگا۔ کوئی بھی جنگ اپنی زمین پر دوسروں کے طے کردہ رولز آف گیم کے تحت نہیں لڑی جاسکتی ۔
ہم آپ کی وساطت سے پاکستانی قوم ،علمائے کرام اور ذرائع ابلاغ کو بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ترجیحات اور توجہ کو اصل مسئلہ پر مرکوز رکھاجائے ۔ اس وقت پاکستان کے جملہ سیاسی ،معاشی ،داخلہ اور خارجہ مسائل کی کنجی پاکستان میں امن کے قیام سے وابستہ ہے۔ امن کے قیام کے لیے قومی سطح پرجو اتفاق رائے ہواہے اسے کسی بیرونی دباﺅ یا اندرونی خلفشار کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے ۔ جماعت اسلامی اس سلسلہ میں
حکومت ، فوج سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کرنے کو اپنا قومی فریضہ سمجھتی ہے۔
آپ کی توجہ کا بے حد شکریہ ۔
والسلام
خاکسار
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان
اسلام آباد
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
اُمید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
امیرجماعت اسلامی پاکستان جناب سیدمنورحسن کے دو بیانات کو بنیاد بنا کر ذرائع ابلاغ کے ذریعے جو مصنوعی اور گھمبیر فضا تیار کی گئی تھی اس میں پاکستان کے مو ¿قر قومی ادارے افواج پاکستان نے (بذریعہ ISPR)براہ راست ایک سیاسی جماعت کو جس انداز میں چارج شیٹ کیا، اس نے جماعت اسلامی کو مجبور کیا کہ اس پورے منظر نامہ میں آپ کو بطور سربراہ حکومت مخاطب کیاجائے۔ جماعت اسلامی پاکستان ،پاک فوج کے پورے احترام اور اس کی قربانیوں کے اعتراف کے باوجود اصولی بنیاد پر یہ سمجھتی ہے کہ افواج پاکستان سمیت تمام اداروں کو آئینی اور قومی سطح پراُن مسلمہ حدود کاپابند ہوناچاہیے۔جسے پاکستانی عوام کے اتفاق رائے، قومی نمائندوں کے اجماع نے بہت پہلے 1973ءکے متفقہ دستور کی شکل میں طے کردیاہے۔ پاکستان کی گذشتہ 60سالہ تاریخ اداروں کی اسی بے بسی اور طالع آزمائی کا بیک وقت شاہکار ہے۔ باشعور عوام ، آزاد عدلیہ اور میڈیا نے ایک تاریخی جدوجہد کے بعد اداروں کو اپنی حدود کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے اور یہ جدوجہد بھی قوم سے مزید استحکام کا تقاضا کرتی ہے ۔ افواج پاکستان کے ترجمان کا براہ راست ایک سیاسی و مذہبی جماعت کو مخاطب کرنا (جس کی ماضی میں کوئی نظیرنہیں ملتی) مسلمہ دستوری تقاضوں سے ماور ا دکھائی دیتاہے۔ پاکستان میں مختلف عناصر، افراداور اداروں کی طرف سے شدید قسم کی بے ضابطگیاں تجاوز ، استحصال اور اظہار ہماری تاریخ میں جا بجا دکھائی دیتے ہیں مگر اس پر کبھی بھی اس انداز میں مو ¿قر اداروں نے سوال نہیں اٹھائے !!!
جماعت اسلامی ایک سیاسی ، جمہوری اور آئینی جماعت ہونے کے ناطے اپنے آپ کو عوام اور قانون کی عدالت میں جوابدہ سمجھتی ہے۔ ہمارے سیاسی نمائندے وطن عزیز کے ہر پلیٹ فارم پر اس جوابدہی کے لیے تیار ہیں مگر یہ جوابدہی انہی قواعد و ضوابط کے تحت ہونی چاہیے جسے پاکستان کے مسلّمہ دستوراور جمہوری روایات نے متعین ومنضبط کردیاہے۔آپ خود ، پوری قوم اور ملک کے تمام انتظامی اور عسکری مو ¿ثر ادارے آگاہ ہیں کہ جماعت اسلامی کی قومی سلامتی، بیرونی مداخلت کی مزاحمت اور دفاع وطن کے لیے لازوال قربانیاں ہیں ۔ مشرقی پاکستان میں کارکنان کی وحدت پاکستان اور بھارتی جارحیت کے خلاف قربانیاں تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس جرم میں آج بھی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے کارکنان اور قیادت حُب الوطنی اور اسلام سے محبت کی وجہ سے مظالم اور سزائیں بھگت رہے ہیں ۔ اس حوالہ سے جماعت اسلامی پر تنقید کرنے والے حقیقت میں افواج پاکستان پر حملہ آور ہیں۔ بانی ¿ پاکستان قائد اعظمؒ کے فرمان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے کشمیر کو پاکستان کے لیے رگِ جاں قرار دیا ۔ جموں،کشمیر ،گلگت و بلتستان میں جماعت اسلامی کی قربانیوں ،نوجوانوں کے پاکیزہ خون کے نذرانوں ،کشمیری قیادت کی آزادی اور حقِ خودارادیت کے لیے خصوصاً بزرگ رہنما سید علی گیلانی کی جدوجہد سے کون انکار کرسکتاہے۔ آخرتاریخ کے ان حقائق کو ISPRکا ایک پریس ریلیز کیسے یکسر ختم کرسکتاہے ؟ قومی سلامتی اور پاکستان کی نظریاتی، جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور عوام کے دکھوں اور محرومیوں کے خاتمہ کے لیے ہماری جدوجہد جاری ہے ۔ اس لیے کہ یہ ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔
جماعت اسلامی اس امر پر اپنی تشویش کااظہار کرتی ہے کہ اس وقت جب ملک سنگین مسائل سے دوچا ر ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ نے افغانستان، عراق،پاکستان اور پوری دنیا کو اس آگ میں جھونک دیا ہے اس سے نکلنے کے لیے پاکستان کو پوری سیاسی اور عسکری قیادت کی تائیدمیسرآئی تھی تاکہ حکومت امن کے قیام کے سلسلہ میں اپنی کوششیں جاری رکھتی ۔ اسے سبوتاژ کرنے کے لیے امریکہ نے تازہ ترین ڈرون حملوں کی صورت میں جواقدام کیا ہے اس سے توجہ ہٹانے کے لیے غیر متعلق ایشوز پر ہنگامہ برپا کرنے اور قوم و ملک کی توجہ کو اصل مسئلہ سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جماعت اسلامی اس امر کی دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کرتی ہے کہ وہ ایک دستوری اور جمہوری جماعت ہے جو اپنے اورملکی دستور و آئین کی پابند ہے ۔ اسلامی نظام زندگی کے قیام اور شریعت مطہرہ کے نفاذ کے لیے ہم جمہوری اور دستور ی ذرائع سے تبدیلی ہی کو تبدیلی کا درست راستہ تسلیم کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اور ان عناصر کے طریقہ کار میں زمین وآسمان کا فرق ہے جو شریعت کو بھی طاقت کے ذریعہ نافذ کرنے کے مدّعی ہیں۔
جماعت اسلامی نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان پر فوج کشی کی اوّل دن سے مذمت کی ہے اور افغانستان سے امریکی و ناٹو افواج کے مکمل انخلاءکو علاقہ میں امن کے قیام کے لیے ضروری قراردیا ہے۔ سابق ڈکٹیٹر حکمران جنرل پرویز مشرف نے جس طرح پاکستانی قوم اور ملک کو اس آگ میں جھونکا ہے ہم نے تسلسل سے اس کی مذمت کی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارا موقف من و عن وہ ہے جو پارلیمنٹ کی 22 اگست 2008ءاور 14مئی 2011ءکی قرار دادوں میں بیان کیاگیاہے۔ جس کا اعادہ ایک بار پھر تمام جماعتوں نے 9ستمبر 2013ءکو منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ بیان میں کیاہے۔
جماعت اسلامی کی نگاہ میں فوج ایک قومی اور دستوری ادارہ ہے جسے دفاع پاکستان کے لیے عوام کے منتخب نمائندوں کی پالیسی اور قراردادوں کو لے کر چلنا چاہیے۔ آئین پاکستان کی رو سے صدر پاکستان اس کے سپریم کمانڈر اور وزارت دفاع اس کے جملہ امور کی ذمہ دار ہے۔ دفاع پاکستان کے ضمن میں افواج پاکستان نے جو بھی خدمات انجام دی ہیں ان پر ہمیں اور پوری قوم کو فخر ہے۔ تاریخ کے تسلسل میں اسلام اور پاکستان کے لیے ہمارے جن افسروں اور جوانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے ان کی شہادت ہمارا تاریخی امتیاز اور قومی اثاثہ ہے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سابق حکمرانوں کی امریکہ نواز پالیسیوں کی بھاری قیمت قوم ادا کررہی ہے اور ہمارے دلیر جوان بھی !!نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی یہ جنگ جس طرح ہمارے قومی، انسانی اور معاشی وسائل کو چاٹ چکی ہے اس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری ملٹری اورسیاسی اسٹیبلشمنٹ امریکہ کے ساتھ کیے جانے والے تمام اعلانیہ اور خفیہ ،تحریری اور زبانی معاہدات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ختم کرنے کا اعلان کرے۔ قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر خطیر غیر ملکی امداد وصول کرنے ، ناٹو افواج کو لاجسٹک اور اطلاعاتی رسائی فراہم کرنے کی پابندی کے بعد ہمارے حکمران کیونکر ڈرون حملوں پر اقوام عالم اور امریکہ سے احتجاج کرنے میں بھی حق بجانب ٹھہرتے ہیں۔ اصل مسئلہ سامراجی جنگ کا خاتمہ اور پاکستان سے اس کی گلوخلاصی ہے۔
جماعت اسلامی نے دہشت گردی کی ہر شکل کی ہمیشہ سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جب اور جہاں بھی معصوم انسانوں ، ریاستی و قومی اداروں ، مذہبی اعتبار سے مقدس مقامات اور اجتماعات جن میں مساجد ، امام بارگاہ، مدارس اور چرچ سبھی شامل ہیں ، کو نشانہ بنایا گیاہے۔ جماعت اسلامی نے اُسے غیر اسلامی ،غیر قانونی اور غیر انسانی عمل قرار دیا ہے۔ ملک میں جاری دہشت گردی کی لپیٹ میں جماعت اسلامی کے 17سے زائد ارکان نے جان کانذرانہ پیش کیا ہے۔ قومی اخبارات اور ذرائع ابلاغ اس بات کے گواہ ہیں کہ نہتے و پرامن شہریوں کے ساتھ ساتھ فوجی جوان اور افسروں کی شہادت پر افسوس اور مذمت کااظہار کرنے میں ذرا بھی تردد سے کام نہ لیا۔ میجر جنرل ثناءاللہ نیازی سمیت متعدد فوجی شہداءکے گھروں پرجماعت اسلامی کی قیادت نے بالمشافہ جا کر افسوس اور احترام کے جذبات کااظہار کیا ہے۔ ہمیں اس بات کا اظہار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ملک کے دفاع اور اس کے اسٹرٹیجک مفادات کے تحفظ میں جماعت اسلامی کے کارکنان کی مادی خدمات کسی بھی دوسرے قومی ادارے سے کم نہیں۔ قومی افتاد ،آسمانی آفت اور بیرونی جارحیت پر جماعت اسلامی کے کارکنان نے اسے قومی فریضہ سمجھتے ہوئے تن من دھن کی بازی لگائی جو تاریخ کا حصہ ہے اس پر ہم فخر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بھی ہیں۔
حکیم اللہ محسود کو ڈرون حملے میں جس طرح نشانہ بنایا گیا اس کی مذمت ملک کے ہر طبقہ نے بلا تخصیص کی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حملہ قومی اتفاق رائے پر حملہ ہے جس کے نتیجہ میں امن کی کوششوں کو قتل کیا گیاہے ۔ قوم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ دس سال سے جاری اس بے چہرہ اور درآمدشدہ جنگ میں جب قومی اتفاق رائے کرلیا گیا تو ایک ترتیب کے ساتھ تین چار واقعات کو بنیاد بنا کر اس اجماع کو تہہ و بالا کردیا گیا اور یہ ماضی میںہر اس موقع پر ہواہے جب بھی ریاست اور ادارے امن کے لیے کچھ نہ کچھ پیش رفت کرتے نظر آتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دو انٹرویوز اور کہے جانے والے چند جملوں کی بنیاد پر جماعت اسلامی کے دیرینہ موقف ،تاریخی کردار ،سیاسی جدوجہد کو نظر انداز کرنا کسی بھی طرح ایک باوقار قومی ادارے کے شایان شان نہیں ہے۔ ہم ایسی کسی بحث میں فریق بننے کو بھی قومی مفاد سے متصادم تصور کرتے ہیں جو قوم کو بانٹنے اور توجہ کو امن کی کوششوں سے ہٹا کر کسی اور سمت لے جائے جس کا خدشہ قوم کو گذشتہ کئی ہفتوں سے ہے۔ (مذاکرات کا یہ سفر منزل کی طرف ایک قدم اٹھائے بغیر ختم نہیں کردینا چاہیے ۔ ملک و ملت کے لیے مزید نقصانات کا باعث ہوگا۔)
اس وقت ملک کے مستقبل کا انحصار اس تباہ کن جنگ کے خاتمے پر ہے جس نے پوری قوم کو گزشتہ دس سال سے اپنی لپیٹ میں لیا ہواہے نہ کہ فروعی ضمنی مباحث کو طول دینے میں ، جماعت اسلامی پوری قوم اوربالخصوص سیاسی وعسکری قیادت سے اپیل کرتی ہے کہ وہ توجہ کو اصل مسئلہ پر مرکوز کرے۔ امریکہ نے افغانستان میں بارہ سالہ ناکامی کے بعد بہت ہوشیاری اور چالاکی سے محاذ جنگ کو پاکستان میں منتقل کردیاہے۔ پوری دنیا میں سفارتی ناکامی اورعسکری شکست کی جھنجھلاہٹ اس نے پاکستانی ریاست پر اتاری ہے ۔ امریکی ذرائع ابلاغ ، تھنک ٹینکس اور سابق اعلیٰ امریکی سفارتکار افواج پاکستان اور افغانستان میں پاکستان کے کردار کے حوالہ سے جو خیالات رکھتے ہیں وہ اب بالکل پبلک ہیں۔اس کے بعد کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کو تقسیم کرکے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے جماعت اسلامی کاموقف بالکل واضح ہے ۔ غیر ملکی افواج کو وہاں سے اپنے مفادات سمیت نکلنا چاہیے۔ پاکستان اور ہمسایہ ملک سمیت اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو افغان عوام کی مرضی کے مطابق حقیقی نمائندہ حکومت بنانے میں ممکن حد تک تعاون کرناچاہیے ۔جبکہ پاکستان میں مذہبی و عوامی مقامات پر معصوم عوام اور قومی فرائض کی بجا آوری پر مامور ملازمین پر حملوں کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے جنگ کو پہلے قبائلی علاقوں اور پھرپورے ملک میں گھسیٹ لانے کی ذمہ داری امریکہ کے شاطرانہ ذہن کے ساتھ ساتھ ہمارے پالیسی سازوں پر بھی عائد ہوتی ہے ۔ جماعت اسلامی کو طالبان کا” سیاسی ونگ“ کہنے والے ذرائع ابلاغ اور اہل دانش کو یاد دلانا مناسب ہوگاکہ پیپلز پارٹی کی عوامی حکومت میں وزیرداخلہ نے انہی طالبان کو ”اپنا بچہ “ قرار دیا بعد ازاں ہمارے ہی اداروں نے ”اچھے اور بُرے طالبان“ کی اصطلاح وضع کی افغانستان میں مجاہدین یا طالبان کی حکومت کو سب سے پہلے تسلیم کرنے میں خود پاکستانی حکومت ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ پیش پیش تھی۔
جماعت اسلامی اصولی بنیادوں پر سمجھتی ہے کہ افغانستان میں قیام امن اور پاکستان میں مذاکرات کے ذریعے امن کی کاوشوں کو مستحکم کیے بغیر ہم دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی سے لے کر جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف سے لے کر جمعیت علمائے اسلام نے بھی اپنی علیحدہ علیحدہ قرار دادوں اور آل پارٹیز کانفرنس میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کے راستے کو بہترین دستیاب حل قرار دیا ہے اور یہی جماعت اسلامی کاموقف ہے مگر بیرونی دباﺅ کی ذرا سی تپش پر ہماری حکومت اور ادارے اس قومی اتفاق رائے سے منحرف ہونے میں دیر نہیں لگاتے ۔ یہ جنگ اگر ہماری ہے تو اسے ہمیں زمینی حقائق اوراپنے قومی فیصلوں کے تحت لڑنا ہوگا۔ کوئی بھی جنگ اپنی زمین پر دوسروں کے طے کردہ رولز آف گیم کے تحت نہیں لڑی جاسکتی ۔
ہم آپ کی وساطت سے پاکستانی قوم ،علمائے کرام اور ذرائع ابلاغ کو بھی متوجہ کرتے ہیں کہ ترجیحات اور توجہ کو اصل مسئلہ پر مرکوز رکھاجائے ۔ اس وقت پاکستان کے جملہ سیاسی ،معاشی ،داخلہ اور خارجہ مسائل کی کنجی پاکستان میں امن کے قیام سے وابستہ ہے۔ امن کے قیام کے لیے قومی سطح پرجو اتفاق رائے ہواہے اسے کسی بیرونی دباﺅ یا اندرونی خلفشار کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جائے ۔ جماعت اسلامی اس سلسلہ میں
حکومت ، فوج سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کرنے کو اپنا قومی فریضہ سمجھتی ہے۔
آپ کی توجہ کا بے حد شکریہ ۔
والسلام
خاکسار
(لیاقت بلوچ )
سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان
No comments:
Post a Comment